عادل و امین ہے تو رعایا بھی امین ہو گی،اگر حا کم فا سق اور فا جر ہو گا تو رعا یا بھی اس کے رنگ میں رنگی جائے گی۔عربی کی ضرب المثل اس معنی میں معروف ہے کہ الناس علی دین ملوکھم لوگوں کا وہی دین اور چال چلن ہوگا جو حاکم کا ہوگا۔مورخین نے لکھا ہے: کہ ولید بن عبدالملک رحمہ اللہ کے زمانہ میں لو گ جمع ہوتے تو عمارتوں اور طرز تعمیر کی بات چیت کرتے،اس لئے کہ ولید رحمہ اللہ کا یہ ذوق تھا اور اس کا پورے ملک پر اثر تھا۔سلیمان بن عبدالملک رحمہ اللہ کھانوں کا بڑا شائق تھا۔اس کے زمانے میں مجلسوں کا موضوع سخن یہی تھا۔لیکن عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کا دور عبادات و طاعات کا تھا تو مجلسوں کا بھی یہی موضوع بن گیا،جہاں بھی چار آدمی جمع ہوتے تو ایک دوسرے سے پوچھتے کہ رات کے معمولات کیاہیں،کتنا قرآن یاد ہے،قرآن کب ختم ہوگا،اور مہینے میں کتنے روز ے رکھتے ہو۔
ایران فتح ہوا تو اس کا مال غنیمت تقسیم ہوکر پانچواں حصہ دربار خلافت میں بھیجا گیا،اس میں شاہ ایران کا تاج بھی تھا جو سونے کی تاروں سے بنا ہوا تھا،سونے کے کنگن بھی اور قیمتی پیٹی بھی،جس پر لعل وجواہر جڑے ہوئے تھے،سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ یہ سارا سامان چھڑی سے الٹا پلٹاکر دیکھ رہے تھے،اسی دوران انہوں نے حاضرین کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا :جو لوگ یہ مال غنیمت لائے ہیں بہت بڑے امین ہیں،کہ ایک موتی بھی اپنی جگہ سے نہیں سرکا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ پاس کھڑے تھے فرمانے لگے :امیرالمومنین آپ امین ہیں تو آپ کی رعیت بھی امین ہے،اس لئے حکومتی مناسب کے انتخاب میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے،اور حاکم یا عامل کا یہ عہدہ امانت ہے،حصول زر اور جلب منفعت کا ذریعہ نہیں،حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ رعیت دے،اور وہ اپنی رعیت سے خیانت کرے،اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام قرار دی ہے۔
(صحیح مسلم :ج۲ص۱۲۲)
امانت ایک وسیع لفظ ہے
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امانت کا اطلاق ان تمام حقوق اللہ پرہوتا ہے جن کا پورا کرنا واجب ہے،جیسے نماز،زکوۃ،روزہ،نذر اور ادائیگی کفارہ وغیرہ اور ان حقوق العباد
|