تفصیلات ہمارے موضوع سے خا رج ہیں،ہم یہاں یہ عر ض کر نا چا ہتے ہیں،کہ مقدارزکاۃ کے تعین سے پہلے مطلقاً اللہ تعالیٰ کی راہ میں خر چ کرنے کا حکم تھا،بلکہ عمو ماً مسلمانوں کے ابتد ائی حالات کے پیش نظر ضرورت سے ز ائد مال خرچ کر دینے کاحکم تھا،چنانچہ اللہ تعالیٰ فر ماتے ہیں کہ:
﴿ وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ۵ط قُلِ الْعَفْوَ﴾(البقر ۃ :۲۱۹)
کہ آ پ سے در یافت کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں ؟ کہہ دیجئے کہ ضرورت سے جو کچھ بھی زائد ہے (خر چ کرو )۔
مہاجر ین لٹ پٹ کر مد ینہ طیبہ پہنچے تھے،انصا ر صحا بہ رضی اللہ عنہ نے جس ایثا ر و قر با نی کا مظاہرہ کیا آ سمان دنیا نے یہ نظارہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا نہ بعد میں۔اور ان کے اسی ایثا ر کا تذکرہ اللہ سبحا نہ وتعالیٰ نے اپنے پاک کلا م میں یوں کیا :
﴿ وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ وا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حََاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوکَا نَ بِھِمْ خَصَاصَۃً ﴾(الحشر:۹ )
اورجو ان کے ( آ نے ) سے پہلے ایما ن لا چکے،اور یہاں ( مد ینہ میں ) مقیم ہیں وہ ان کی طر ف ہجرت کر کے آ نے و الوں سے محبت کر تے ہیں،اور جو کچھ انہیں دیا جائے وہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے،اور وہ ان کو اپنی ذات پر تر جیح دیتے ہیں،خواہ وہ خود فاقہ سے ہوں۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہر یرۃ رضی اللہ عنہ سے مر و ی ہے کہ انصا ری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت اقدس میں حاضر ہو کر یہ پیش کش کی کہ ہما رے کھجو روں کے با غات ہمارے اور ہما رے مہاجر بھا ئیوں کے درمیا ن تقسیم کر دیجئے،آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نہیں،یہ لو گ تو با غبانی جا نتے نہیں،کیا یوں نہیں ہو سکتا کہ با غبا نی تم کرو اور پیداوار میں سے حصہ ان کو دو،انہوں نے عر ض کیا’’ سمعنا و أطعنا ‘‘ ٹھیک ہے ہم نے سن لیا اور تسلیم کیا۔( بخاری: ج اص۵۳۴ )
|