Maktaba Wahhabi

198 - 534
تو یہ ہوگی کہ ضامن نے ایسی چیز کی ضمانت لی ہے جو ابھی تک مضمون عنہ ( یعنی جس کی ضمانت دی جا رہی ہے ) اس کے ذمہ بھی ابھی واجب نہیں ہوئی ۔ لیکن اہل علم اس کے جواز کے قائل ہیں جن میں تینوں امام یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ، امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب یہی ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ اپنے قدیم مذہب میں جبکہ امام شافعی کے جدید قول میں سابقہ رائے سے اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اس معاملے میں جمہور اہل علم کی رائے اصول شریعت سے زیادہ موافق اور قریب تر ہے کہ شرعی اصول کے موجب معاملات اپنی اصل میں حلت پر قائم ہیں تا وقتیکہ ان میں کوئی ایسامانع نہ پیدا ہوجائے جیسا کہ دھوکہ ابہام وغیرہ وغیرہ ۔ اور اس چیز کی ضمانت اپنے ذمہ لینا جو ابھی واجب نہیں ہوئی اس میں کسی قسم کی غرر دھوکہ ابہام نہیں پایا جاتا لہٰذا اس کا حکم عموم پر باقی رہے گا اور وہ ہے جواز کا [1] ۔ واللہ اعلم ۔ یہی وجہ ہے کہ حنابلہ نے ضمانت کی تعریف یوں کی ہے :’’ضمانت ایک ایسی دستاویز کا نام ہے جس میں مخصوص پابندی جوغیر پر لازم ہوچکی یا مستقبل میں ہوگی کو اپنے ذمہ لینا ساتھ اس کے کہ وہ پابندی اصل فرد پر بہر صورت قائم رہے گی ۔ یا انسان کا کسی کام یا عمل کے بارے میں ذمہ داری اٹھانا جو حال میں یا مستقبل میں اس پر لازم ہوگی۔‘‘ [2] ضمانت پر معاوضہ لینا ضمانت پر اجرت( کرایہ ) کا لینا نہ کہ رائلٹی لیناکیونکہ رائلٹی کا مفہوم یہ ہے کہ : ’’کوئی بھی صاحب تصرف کوئی معینہ چیز مقرر کردے کہ جو شخص ایک معلوم یا مجہول کام کسی معلوم یا مجہول مدت میں انجام دےگا تو اسے وہ چیز دی جائے گی ، جعالہ میں کام اور مدت کے تعین کی شرط نہیں ہوتی اور نہ ہی بوقت ضرورت کسی عامل کا تعین کیا جانا ضروری ہوتا ہے ۔
Flag Counter