Maktaba Wahhabi

251 - 534
ہیں ۔ علامہ ابن نجیم حنفی خراسان کے امیر غطریف بن عطاء کندی کی طرف منسوب’’ غطارفۃ‘‘ نامی دراہم جن میں ملاوٹ زیادہ اورچاندی کم ہوتی تھی، کی بحث میں رقم طراز ہیں : ’’وذکر الولوالجي أَن الزکاۃ تجب في الغطارفۃ إذا کانت مائتين؛ لأنها اليوم من دراهم الناس وإن لم تکن من دراهم النّاس في الزّمن الاول وإنما يعتبر في کل زمان عادۃ أهل ذلک الزمان‘‘. [1] ’’ولوالجی نے ذکر کیا ہے کہ غطارفہ جب دو سو ہوں تو ان میں زکوٰۃ واجب ہو گی،کیونکہ اگرچہ پہلے زمانے میں یہ لوگوں کے درہم نہیں تھے مگر آج کل یہی ہیں ۔ ہر دور میں اس زمانے کا رواج معتبر ہوتا ہے‘‘۔ اس سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے کہ شرعی لحاظ سے زر کے انتخاب میں سونے چاندی کی پابندی نہیں ہے، قیمتوں کو چانچنے کے لئے کسی بھی چیز کو معیار بنایا جا سکتا ہے بشرطیکہ اسے معاشرہ میں قبولیت حاصل ہو۔ زَر صرف حکومت جاری کر سکتی ہے اگرچہ شریعت نے زر کے انتخاب میں کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی، لیکن زر جاری کرنے کا اختیار صرف حکومت کو دیا ہے کیونکہ مالیاتی لین دین کا مکمل نظام زر کی اساس پر ہی رواں دواں ہے اور اگرہرکس و ناکس کو حسب ِمنشا زر جاری کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس سے نہایت خطرناک اقتصادی اور معاشی حالات پیدا ہو جائیں گے۔چنانچہ کویت کے فقہی انسائیکلوپیڈیا میں ہے: ’’ولا يجوز لغير الإمام ضرب النقود لأن في ذلک افتياتا عليه ويحق للإمام تعزير من افتات عليه فيما هو من حقوقه، وسواءً کان ما ضربه مخالفًا لضرب السلطان أو موافقا له في الوزن ونسبۃ الغش وفي الجودۃ حتی لو کان من الذهب والفضۃ الخالصين، قال الإمام أحمد في روايۃ جعفر بن محمد: لا يصلح ضرب الدراهم
Flag Counter