Maktaba Wahhabi

281 - 534
(9)اگر افراطِ زر کی شرح،منافع کی شرح سے زائد ہوجائے گی تو بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے قرضوں کے کھاتے قبول کرنے سے احتراز کریں گے ۔نیز ایکویٹی Equity کی بنیاد پر رقوم کی فراہمی میں بھی تعطل پیدا ہوجائے گا۔ (10)اشاریہ بندی کے عمل کو اگر عام کردیاگیا تو معاشرےمیں ایک ہی کرنسی کی مختلف قیمتیں رائج ہوجائیں گی۔ یعنی کاروباری مقصد کے لئے مختلف قیمت ، اشاریہ بندی کے لئے مختلف قیمت، افراطِ زر کے دوران ایک نئی قیمت ، غرض یہ کہ بنیادی یونٹ ہونے کے ناطے کرنسی کی جو اہمیت ہے وہ ختم ہو کر رہ جائے گی۔ یہ تو اشاریہ بندی کے وہ نقصانات تھے جو اقتصادی اور عقلی نقطہءنظر سے ہمارے سامنے آتے ہیں۔ شرعی نقطہءنظر سے سب سے اہم اعتراض اس حوالے سے یہ ہے کہ اشاریہ بندی کا عمل سود سے مماثلت رکھتا ہے۔یعنی اس میں رباالفضل کا عنصر پایا جاتا ہے۔ دوم:اشاریہ بندی اورربا الفضل اشاریہ بندی پر سب سے زیادہ سنگین اعتراض شرعی نقطہء نظر سے یہ ہے کہ اس میں ربا الفضل کا پہلو پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر علماءکرام کی اکثریت نے اسے ناجائز قرار دیا ہے ۔ڈاکٹر طاہر منصوری اس ضمن میں لکھتے ہیں : ’’کیونکہ یہ شریعت کا غیر متنازع فیہ اصول ہے کہ قابلِ مبادلہ شے اس کی مثل کی صورت میں واپسی کی جائیگی ، یہ مثلیت جنس کے ساتھ ساتھ وزن ومقدار میں برابری کی شکل میں ہوگی ۔ کاغذی نوٹ بھی ،جو تمام علماء کرام کے متفقہ فیصلہ کی رو سے درہم ودینار کے مشابہ ہیں ، اس اصول کے تابع ہوں گے اور ان کا مبادلہ چاہے صرف کی صورت میں ہو یا قرض کی صورت میں، مقدار میں برابری کی بنیادپر ہوگا،مقدار کی اس مثلیت سے ذرا بھی انحراف ربا الفضل کے زمرے میں آئے گا ‘‘[1]
Flag Counter