Maktaba Wahhabi

372 - 534
اس حدیث کو امام مسلم نے یوں بیان کیا ہےکہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام مبشر نامی انصاری صحابیہ کا لگایا ہوا کھجور کا درخت دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان کوئی درخت لگائے پھر اس سے آدمی یا پرندے یا جانور کھائیں تو یہ سب کچھ اس کی طرف سے صدقہ میں لکھا جاتا ہے‘‘۔[1] امام بخاری کی روایت کردہ حدیث میں مزید وسعت کے ساتھ لفظ’’ او يزرع زرعا‘‘بھی موجود ہے یعنی کچھ بھی زراعت کرے چاہےباغ لگائے یا کھیتی کرے۔ تو اس سے جو بھی آدمی، جانور، فائدہ اٹھائیں اس کے مالک کے ثواب میں بطور صدقہ لکھا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی اس حدیث میں باغبانی اور زراعت اور زمین کو آباد کرنے کی فضیلت مذکور ہے۔ مگر جو کاروبار فرائض اسلام کی ادائیگی میں حائل ہو، وہ الٹا وبال بھی بن جاتا ہے۔ کھیتی کا بھی یہی حال ہے کہ بیشتر کھیتی باڑی کرنے والے یادِ الٰہی سے غافل اور فرائض اسلام میں سست ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں کھیتی اور اس کے آلات کی مذمت بھی وارد ہے۔ ابو امامہ باہلی سے مروی ہے کہ انہوں نے ہل اور کچھ کھیتی کے آلات دیکھے، تو کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے: ’’لا يدخل هذا بيت قوم إلا أدخله اللّٰه الذل‘‘۔[2] ’’ جس قوم کے گھر میں یہ داخل ہو، اس گھر میں اللہ ذلت داخل فرماتاہے‘‘۔ بہرحال مسلمان کو دنیاوی کاروبارکے ساتھ ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا اور فرائض اسلام کو ادا کرنا ضروری ہے۔ مزارعت کے متعلق احکام اسلام کے معاشی نظام کے مثبت معاشی مقاصد میں غربت کا انسداد اور تمام انسانوں کو معاشی جد وجہد کے مساوی مواقع فراہم کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام سب کو حصول رزق کے مواقع عطا کرنے اور
Flag Counter