Maktaba Wahhabi

178 - 534
 صارف چونکہ کرایہ دار ہے اس لئے وہ یہ سامان (مثلاً گھر) کسی کو بیچ نہیں سکتا، جبکہ بینک چونکہ مالک مکان ہے اس لئے وہ جب چاہے کسی کو بھی وہ سامان بیچ سکتا ہے، اور صارف اس پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ الغرض کہ اسلامی بینک اجارہ اور بیع کے ملاپ سے بننے والے مروجہ اجارہ میں ہر جائز و ناجائز فائدہ سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ اس اجارہ کی حقیقت ہے جسے اسلامی بینک سودی بینکوں کے لیزنگ (Leasing Contract) کا متبادل قرار دیتے ہیں۔ مروجہ اجارہ میں شرعی اعتراضات ( پہلا اعتراض)بینک کا صارف سے وعدہ لینا کہ وہ مطلوبہ سامان کو بینک سے کرایہ پر حاصل کرے گا۔ یہ بالکل اسی وعدہ کی طرح ہے جو مروجہ مرابحہ کے (Master Murabaha Facility Agreement) میں بینک صارف سے لیتا ہے ، اور مزید اطمئنان کے لئے مخصوص رقم سیکیورٹی کے طور پر بھی لی جاتی ہے۔ اس حوالہ سے گزشتہ صفحات میں تفصیل گزر چکی ہے کہ اگر صارف پر اس وعدہ کے ایفاء کو قانوناً لازم کیا جاتا ہے تو اس سے معاملہ ناجائز ہوجاتا ہے ، کیونکہ اس وعدہ کی وجہ سے معاہدہ منعقد ہوجا تا ہے اور بعد میں الگ سے جو اجارہ یا مرابحہ کا معاہدہ کیا جاتا ہے وہ محض دکھلاوا ہے، کیونکہ جس ایگریمنٹ میں صارف سے پہلے ہی وعدہ لے لیا گیا ہے اسی میں مطلوبہ سامان کی تفصیلات ، کرایہ کا تعین ، ادائیگی کا طریقہ کار طے کرلیا جاتا ہے، جبکہ ابھی بینک نے مطلوبہ سامان حاصل نہیں کیا ہوتا۔اور بیع کی طرح اجارہ میں بھی یہ شرط ہے کہ مؤجر (سامان کرایہ پر دینے والا) کے پاس سامان موجود ہو ۔ ( دوسرا اعتراض)بینک کا صارف کو وکیل بنانا۔ اس حوالہ سے بھی مرابحہ میں تفصیل گزرچکی ہے کہ بینک کا صارف کو ہی وکیل بنادینے سے معاملہ مشتبہ ہوجاتا ہے اور سودی تمویل کے مشابہ ہوجاتا ہے۔ ( تیسرا اعتراض)بینک کا سامان کی ملکیت کو اپنے پاس رکھنا۔ جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بیان ہوا ہے کہ مروجہ اجارہ دراصل بیع (خرید وفروخت) کا معاملہ ہے، لہذا
Flag Counter