Maktaba Wahhabi

75 - 187
﴿ وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُونَ ﴾(المؤمنون:۴) اور وہ جوزکوٰۃ دیاکر تے ہیں۔ فلا ح وفوز کا تیسر اذریعہ ’’زکا ۃ ‘‘ بتلا یا گیا ہے۔جس کے معنی اکثر مفسرین نے ما لی زکا ۃ کے کئے ہیں،اور بعض کے نز دیک اس سے مراد شر ک و نجا ست سے اپنے آ پ کو پا ک صاف رکھنا ہے،اور معنی یہ ہوں گے کہ وہ تز کیہ کاکا م کر نے و الے ہیں،جس میں ہر قسم کا تز کیہ شا مل ہے،تز کیہ نفس،تز کیہ اعمال و اخلاق،تزکیہ ما ل۔ علا مہ آلو سی رحمہ اللہ نے کہا ہے: ظا ہر بات یہ ہے کہ یہاں مر اد تز کیہ ہے ( روح: ص۵ج۱۸) علامہ راغب اصفھا نی فرماتے ہیں : کہ زکا ۃ سے یہاں مر اد طہا رت اور پاکیزگی ہے اور ’’ للزکٰو ۃ ‘‘ میں لا م تعلیل کے لیے ہے،یعنی وہ جو بھی نیک عمل کر تے ہیں،اس لیے کر تے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پا ک صا ف کردے،یا وہ اپنے نفو س کو پاک صا ف کر نے کے لیے عبادت کر تے ہیں،اس کی تا ئید ان آیات سے بھی ہوتی ہے: ﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکٰیo وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی﴾ (الأعلی:۱۴،۱۵) بے شک فلا ح پا ئی اس نے جو پاک ہوااور اپنے رب کا نا م یاد کیا،نما ز پڑھی ‘‘ اور﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾(الشمس :۹،۱۰)بیشک فلا ح پا ئی جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور بے شک نا مر اد ہوا وہ جس نے اسے (گناہوں میں ) دبا دیا ‘‘ کہ دو نوں جگہ گنا ہوں سے پا ک صا ف ہو نا ہی مر اد ہے۔( مفر دات القران،روح المعانی ) تا ہم اجلہ و اکثر مفسرین نے اس سے زکا ۃ ما لی مر اد لی ہے،اس پر یہ اعتراض و ارد ہو تا ہے کہ معرو ف قول کے مطا بق زکا ۃ ہجرت کے بعد فر ض ہوئی،جبکہ یہ سو رۃ مکی ہے،تو اس کا جو اب یہ ہے: کہ مطلقا ً زکاۃ و انفا ق کا حکم تومکہ مکر مہ میں تھا مگر اس کا با قاعدہ حکم اور اس کی مقد ار اور اس کا نصا ب مد ینہ طیبہ میں مقرر ہوا۔ سورہء المزّمّل ابتد ائی سو رتوں میں سے ہے،جس میں ارشا د ہو تا ہے : ﴿وَاَ قِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّ کٰوۃَ وَ اَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضاً حَسَنًا (المزمل :۲۰)
Flag Counter