اور زیغ و ضلا ل کی راہ اختیا ر کر لیتے ہیں۔
اورکثرت سوال سے مرا د وہ سوال ہے جو در،در پر حصو ل زر کے لیے سائلین کرتے ہیں،اور وہ بے معنی سوالات بھی جن کاعقیدہ و عمل سے کوئی تعلق نہیں اسی طر ح متشابہات کے بارے میں سو ال یا کسی حا دثہ یا کسی انسان یا تا ریخی واقعات سے متعلقہ جزئیات کا سوال جیسے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی تفصیلا ت،حضرت مو سی علیہ السلام کے عصا یا حضرت عیسی علیہ السلام پر ما ئدہ کے نز و ل کی تفصیلات کا سو ال۔بنی اسر ائیل کو گا ئے ذبح کر نے کا حکم ملا انہوں نے سوا ل درسو ال سے کہ گا ئے کیسی ہو،اس کا رنگ کیسا ہو؟ اس کی نو عیت و ماہیت کیسی ہو ؟خود اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیں۔آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طر ح کے سوالات سے منع فرما یا،چنانچہ حضرت ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ سے مر وی ہے کہ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ ارشا د فرمایا: کہ لوگو! اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فر ض کیا ہے تم حج کرو،توایک آ دمی نے عرض کیا،کیا ہر سا ل حج ہے ؟ آ پ اس کے جواب میں خا مو ش ر ہے،اس نے تین با ر یہ سو ال دہر ایا،تو آ پ نے فرما یا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سا ل فر ض ہو جاتا۔پھر آ پ نے ارشا د فرمایا :
ذرونی ما ترکتم فاِنّما ھلک من کان قبلکم بکثرۃ سؤالھم و اختلا فھم علی انبیاء ھم۔(مسلم: ج۱ص۴۳۲ )
جب تک میں تمہیں تمہا رے حا ل پر چھو ڑ رکھوں مجھے میر ے حا ل پر چھو ڑ دو،اس لیے کہ پہلے لو گ کثرت سوال اور اپنے انبیا ء سے اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلا ک ہو ئے۔
صحا بہ کر ام رضی اللہ عنہ اکثر و بیشتر سو ال کر نے سے گر یز کر تے،ان کی تمنا رہتی کہ کوئی با ہر سے دیہاتی آ ئے اور وہ مسئلہ پو چھ لے،ہمیں بھی اس کا علم ہوجا ئے۔(فتح الباری :ص۲۶۶ج۱۳)
ضرو رت مند کے لیے سو ال کر نا اور مسئلہ در یا فت کر نے کا خو د آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا: کہ ’’انما شفا ء العی السو ال ‘‘ (ابو داؤد: ج۱ص۱۳۲ و غیرہ) کہ بیما ر کا علا ج سوال کرنے میں ہے لیکن بے مقصد اور آ ئندہ حو اد ثات کے با رے میں سوال در سو ال سے آپ نے منع فرما یا،بلکہ ایسے سو الات سے آپ ناراضی کا اظہا ر بھی فر ما تے۔کسی نے
|