Maktaba Wahhabi

67 - 187
پو چھا میر ا باپ کو ن ہے ؟ کسی نے در یا فت کیا میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا؟ آ پ نے انہیں جو ا ب دیتے ہوئے غصہ میں فر مایا: پو چھو کیا پو چھتے ہو،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ صورت حا ل دیکھی تو پکا ر اٹھے: ر ضینا باللّٰہ ربًّاوّ بالْاِسلام دینًا وّ بمحمد رسولا۔ (بخاری مع الفتح: ص۲۶۴،۲۶۵ج۱۳) اسی طر ح ایسے مسا ئل کے با رے میں سو الات جنکا رو نما ہو نا عا دۃ محا ل ہے،اسی کثرت سوال کے زمرہ میں آتا ہے بلکہ صحا بہ کر ا م رضی اللہ عنہ تو ایسے مسا ئل کے با رے جو اب دینے سے گر یزکر تے تھے جو وقو ع پذیر نہیں ہو تے تھے۔اما م دار می رحمہ اللہ نے اپنی سنن کے مقدمہ(ص۴۷ج۱) میں اور حا فظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البا ری (ص۲۶۶ج۱۳) میں اس سلسلے میں متعد د آثا ر نقل کئے ہیں۔چنا نچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :کہ جو و اقعہ ہوا نہیں اس کے بارے میں مت سو ال کیا کرو،کیونکہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ’’یلعن من سأ ل عمالم یکن ‘‘ کہ وہ اس شخص پر لعنت کر تے تھے جو ایسی بات کے معاملے میں سوال کرتا جو ابھی و اقع نہیں ہو ئی ہوتی تھی،بلکہ حضرت شاہ و لی اللہ محدث دہلو ی رحمہ اللہ نے تو اس نو عیت کی جسارت کو اسباب فتن میں شما ر کیا ہے،چنا نچہ اپنی معرکۃ الاراء تصنیف از الۃ الخفا ء عن خلا فۃ الخلفا ء کی فصل پنجم میں اسبا ب فتن کا ذکر کر تے ہو ئے لکھتے ہیں : ہفتم تعمق مردم درمسا ئل فقہیہ وتکلم برصور مفر وضہ کہ ہنوز واقع نہ شدہ است و سابق این معنی را جا ئز نمی داشتند الخ۔(ازالہ مترجم :ص۴۹۹،ج۱) فتنہ کے دو ر میں ہو نے و الا سا تواں عمل یہ کہ مسا ئل فقہیہ میں غو ر وخو ض کر نا اور مسائل کی فر ضی صو رتیں جو ابھی و اقع نہیں ہو ئیں ( اپنے ذہن سے تر اش کر لو گوں کے سامنے ) بیان کر نا،پہلے حضرات اسے جائز نہیں سمجھتے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے دارمی رحمہ اللہ کے حو الے سے ان آ ثا ر کو نقل کیا ہے،جن کی طرف ابھی ہم اشارہ کر آ ئے ہیں۔حا فظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی رقمطر از ہیں :
Flag Counter