Maktaba Wahhabi

315 - 534
مالک بھی ہے تو پھر ایک اور سوال ذہن میں آتا ہے کہ نقصان یا حادثہ کی صورت میں کمپنی جو رقم ادا کرتی ہے اس کی کیا حیثیت ہے ؟ کیا صارف نے ضمانت کے ساتھ اس رقم کو بھی خرید لیا ہے یا پھر ضمانت دینے کے باوجود نقصان ہونے کی وجہ سے انشورنس کمپنی بطور عوض کے ادا کرتی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ صارف نے اس رقم کو خریدا نہیں ہے بلکہ کمپنی صارف کا نقصان ہونے کی وجہ سے ادا کرتی ہے تو پھر وہ رقم اتنی ہی ہونی چاہئے جتنا نقصان ہوا ہے ، پہلے سے ہی طے شدہ رقم کیوں ادا کی جاتی ہے؟ اور اگر ہم یہ کہیں کہ صارف نے ضمانت کے ساتھ ساتھ وہ رقم بھی خریدی ہے تو بات وہیں آجاتی ہے کہ اس میں رقوم کا تبادلہ ہے جس میں اضافہ کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے ، اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ الگ ہے کہ اگر صارف نے وہ رقم بھی خریدی ہے تو ہر صارف کو اس کی ادائیگی کیوں نہیں کی جاتی، صرف نقصان ہوجانے پر ہی کیوں ادائیگی کی جاتی ہے؟۔ ان تمام دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انشورنس میں ضمانت نہیں فروخت کی جاتی بلکہ رقوم کا تبادلہ ہوتا ہے ، جس میں ایک فریق نفع میں اور دوسرا نقصان میں رہتا ہے۔ تکافل اللہ تعالی کی توفیق سے تین چار دہائیاں قبل سے عالم اسلام میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوئی ہے اور مسلمانوں نے اپنے معاملات پر نظر ثانی شروع کی ہے ، اس بیداری کے نتیجہ میں جہاں مسلمانوں نے اور میدانوں میں پیش قدمی کی ہے وہیں میدان تجارت میں بھی اسلامی اصول تجارت کودوبارہ زندہ کرنے کی قابل قدر اور قابل تعریف کاوشیں ہوئی ہیں ، اور ان کوششوں میں بحمد اللہ مزید اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ، اس تحریک کے نتیجہ میں جہاں بینکنگ کے میدان میں بعض علما اور تجار حضرات کی کوششوں سے اسلامی بینکنگ کا آغاز ہوا ہے جس میں ابھی مزید بہت بہتری اور تبدیلی و اصلاح کی گنجائش ہے ، وہیں انشورنس کے حرام ہونے کے باوجود معاشرہ میں اس کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے اس کا اسلامی متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی اور جو بالآخر’’تکافل ‘‘ یا Cooperating Insurance یا Islamic Insurance کے نام سے ہمارے سامنے آئی۔اس کاوش کو کئی علماء نے سراہا اور اسے حلال بھی قرار دیا۔
Flag Counter