Maktaba Wahhabi

386 - 534
مجھے اتنی مہلت دے دو تو میں اصل رقم سے اتنی رقم زائد دوں گا‘‘۔ یہ بھی سود کی ایک صورت تھی جسے قرآن مجید نے حرام قرار دیا ہے۔ تجارت اور سود میں بنیادی فرق: سود خور لوگ اس معاملہ کو جائز ثابت کرنے کے لئے کہا کرتے ہیں کہ ہمارا یہ معاملہ بھی ایک قسم کی تجارت ہے جس طرح تجارت میں منافع جائز ہے اس طرح ہم بھی اپنی رقم پر منافع لیتے ہیں۔ ان لوگوں کی بات سراسر غلط اور خلاف حقیقت ہے کفار بھی یہی کہا کرتے تھے۔چنانچہ اللہ تعالی نے ان کا ذکر یوں کیا ہے : }اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا {( البقرہ:275) ’’ جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قبروں سے) اس طرح (حواس باختہ) اٹھیں گے جیسے کسی کو جن نے لپٹ کر دیوانہ بنادیا ہو یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ سود ابیچنا بھی (نفع کے لحاظ سے) ویسا ہی ہے جیسے سود (لینا) حالانکہ تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ لوگ ربوٰ یعنی سود کو ایک قسم کی تجارت کہتے تھے۔اللہ تعالی نے تجارت کو حلال اورربوٰ یعنی سود کو حرام کیا ہے۔ تجارت اور سود میں فرق حالانکہ یہ دونوں معاملے الگ الگ ہیں۔تجارت میں ایک آدمی اپنی چیزکو فروخت کرنے کے لئے پیش کرتا ہے اور دوسرا اسے خرید رہا ہوتا ہے۔اس میں تاجر جو اصل رقم سے زائد رقم لیتا ہے اسے نفع کہا جاتا ہے۔تجارت کا نفع اس لئے جائز ہے کہ بیچنے والے نے پہلے اس چیز کو خود تیار کیا یا وہ اسے کہیں سے خرید کرلایا، پھر کچھ عرصہ اسے اپنے پاس رکھا پھر اس سلسلہ میں اس نے اپنی بدنی،ذہنی اور مالی صلاحیتوں کو صرف کیااور اس کے عوض وہ منافع لے رہا ہوتا ہے۔اس لئے یہ جائز ہے۔اس کے برعکس سود میں ایک آدمی دوسرے کو اپنی رقم دے کر اسے کچھ مہلت دیتا ہے اور وہ اس مہلت کے بالمقابل زائد رقم طلب کرتا ہے جس کے لئے اس نے کچھ بھی محنت نہیں کی ہوتی۔یہ سود ہے جسے اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح تجارت میں ایک طرف ایک جنس ہوتی ہےاور اس کے بالمقابل رقم یا قیمت ہوتی ہے یہ جائز
Flag Counter