یہی روایت معمولی اختلاف سے حضرت انس رضی اللہ عنہ اورحضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ:
ماخطبنا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِلّاقال: لااِیمان لمن لا أَمانۃ لہ ولا دین لمن لا عہدلہ۔(احمد والبزار،صحیح الترغیب :ج۳ص۱۵۶)
جب بھی آپ نے ہمیں وعظ فرمایا: اس میں فرمایا،جو امانت دار نہیں،اس کا ایمان نہیں،جس کا عہدو پیمان نہیں،اس کا دین نہیں۔
گویا ایمان و امانت لازم و ملزوم ہیں،اگر امانت دار نہیں،تو ایمان بھی نہیں،حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
لایغرنک صلاۃ رجل ولا صیامہ من شاء صام و من شاء صل ولکن لادین لمن لا امانۃ لہ۔(شعب الایمان: ص ۳۳۶ ج ۴)
تمہیں کسی شخص کی نماز اور اس کا روزہ دھوکہ میں نہ ڈالے،جو چاہے روزہ رکھے،جو چاہے نماز پڑھے،مگر اس کا کوئی دین نہیں،جو امانت دار نہیں۔
حجۃ الوداع کے عظیم الشان خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پندو نصائح فرمائے،ان میں یہ بھی فرمایا کہ:
من کانت عندہ أمانۃ فلیؤدّھا اِلی من ائتمنہ علیھا۔
جس کے پاس امانت ہواسے چاہیے کہ وہ اس امانت کو اس تک پہنچا دے،جس نے اس پر اسے امین بنایا ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحتیں فرمائیں ان کا ذکر خود حضرت معاذ رضی اللہ عنہ یوں کرتے ہیں :
أخذ بیدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فمشی قلیلا ثمّ قال: یا معاذ! أوصیک بتقوی اللّٰہ وصدق الحدیث ووفاء العھد وأداء الأمانۃ و ترک الخیانۃ ورحم الیتیم و حفظ الجوار وکظم الغیظ ولین الکلام و بذل السلام ولزوم الامام،الحدیث۔(ضعیف التر غیب: ج۲ص۲۹۷)
|