Maktaba Wahhabi

411 - 534
وتابعیننے حاجت سے زائد رکھنے کو حرام ہی فرمادیا۔[1] قُلِ الْعَفْوَ کا مفہوم سیدنا ابو سعید خدری والی حدیث وضاحت سے متعین کرتی ہے۔ " أن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم قال: "من كان معه فضل من ظهر، فليعد به على من لاظهر له، ومن كان له فضل من زاد، فليعد به على من لا زاد له" قال:"فذكر من أصناف المال ما ذكر، حتى رأينا أنه لا حق لأحد منّا في فضل"[2] ’’سیدنا ابو سعید خدریکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کےپاس فالتو سواری ہو وہ اسے لوٹا دے ،جس کے پاس سواری نہیں ہے ا ور جس کے پاس ضرورت سے زائد غذا ہے وہ ان لوگوں کے حوالے کر دے ،جن کے پاس غذا نہیں ہے ‘‘۔ ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک جنس اور مال کی ایک ایک قسم کا جدا جدا ذکر کیا حتیٰ کہ ہماری یہ رائے ہو گئی کہ فالتو مال پر ہمارا کوئی حق نہیں رہا۔‘‘ یہ ’’رأينا ‘‘جو یہاں ہےاس کے یہ معنی نہ خیال لیجئے کہ’’ہم نے یہ خیال کیا‘‘ ۔یہ میں عربی کے طالب علموں سے کہہ رہا ہوں۔ فقہ کی بولی میں ہم ’’رأينا ‘‘اس وقت کہتے ہیں جب ہم کوئی فتویٰ دے رہے ہوں اور اپنی علمی رائے کا اظہار کر رہے ہوں پس یہ جو ابو سعید خدری نے فرمایا :"حتى رأينا أنه لا حق لأحد منا في فضل"تو اس کا معنی یہ ہوا کہ ’’حتیٰ کہ ہماری فقہی رائے یہ ہوگئی کہ فالتو مال پر ہمارا کوئی حق نہیں‘‘۔ کیا اسلامی حکومت جبراًچھین سکتی ہے ؟ اس بارے میں ایک سوال بہت اہم ہے جو ہمارے سامنے آتا ہے ،اگر دولت چند افراد کے ہاتھوں میں یوںسمٹ آئی ہوکہ خدشہ ہو کہ یہ اصول معاشیات جو ہم نے بیان کئے ہیں ،ان کو تدریجی اور ارتقائی طور پر نافذ کرنے سے پہلے ہی یہ معاشرہ دم توڑدے گا ،اور کیفیت یہ ہو کہ :
Flag Counter