Maktaba Wahhabi

183 - 187
من الدراہم والشمع والزیت وغیرھا وینقل اِلی ضرائح الأولیاء تقربا الیھا حرام باجماع المسلمین۔(البحر الرائق:ج ۲ص ۲۹۸،رد المحتا ر: ج۲ص۴۳۹) وہ نذر جو اکثر لوگ مانتے ہیں،جیسا کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مثلاً کسی کا کوئی آدمی گم ہوگیا،یا بیمار ہوا،یا اور کوئی ضرورت ہوئی،تو وہ نیک لوگوں کے مزارات پر جاتے ہیں،ان (کی قبر ) کا پردہ سر پر رکھتے ہیں : اور کہتے ہیں : کہ اے میرے سردار! اگر میر ا گم شدہ آدمی واپس آجائے،یا ہمارا بیمار شفایاب ہو جائے،یا ہماری حاجت پوری ہوجائے،تو میں اتنا سونا یا چاندی یا کھانا یا پانی یا شمع یا تیل نذر کروں گا،تو یہ نذر کئی وجوہ سے باطل ہے،ایک وجہ یہ ہے کہ یہ مخلوق کی نذر ہے اور مخلوق کی نذر جائز نہیں،کیونکہ نذر عبادت ہے اور عبادت مخلوق کی نہیں ہوتی،اور ایک وجہ یہ ہے کہ یہ میت کی نذر ہے اور میت کسی چیز کی مالک نہیں ہوتی،اور ایک وجہ یہ ہے کہ اس نے عقیدہ رکھا کہ میت امو ر میں تصرف کرتی ہے تو یہ عقیدہ کفر ہے اس لئے تقرباً جو روپیہ پیسہ یا چراغ یا تیل وغیرہ اولیاء کی قبر پر منتقل کیا جاتا ہے تمام مسلمانوں کے نزدیک حرام ہے۔فتاوی عالمگیری میں بھی ہے: والنذر الذی یقع من أکثر العوام بأن یأتی الی قبر بعض الصلحاء ویرفع سترہ قائلا یا سیدی فلان ان قضیت حاجتی فلک منی من الذہب مثلا کذا باطل اِجماعا۔(عالمگیری: ج۱ص۲۱۶ نیزالدرا المختار: ص ۴۳۹ ج ۲) اکثر لوگ جو نذر مانتے ہیں کہ کوئی شخص کسی نیک کی قبر پر جاکر اس (کی قبر) کا پردہ اٹھا کر کہتا ہے: کہ میرے سردار! اگر میری فلاں حاجت پوری ہوجائے تو میرے ذمہ آپ کے لئے مثلاً اتنا سونا ہے ایسی نذر با لاجماع باطل ہے،لہٰذا اس قسم کی نذر مانناقطعاً حرام اور اس کو پو را کرنا بھی حرام ہے۔ مگر افسوس کہ حیلہ سازوں نے یہاں بھی یہ حیلہ بنا لیا کہ ایسی نذر عرفی و لغوی ہے حقیقی نہیں،اصل مقصود ایصال ثواب ہے،مگر سوال یہ ہے کہ ایصال ثواب بذات خود ’’عبادت مقصودہ‘‘ ہے؟ قطعاً نہیں،تو یہ نذر کیسی ؟ کل کو یہ حضرات شاید یہ بھی کہیں کہ قبر کو سجدہ،یا قبر کا طواف عرفی یا لغوی ہے،شرعی نہیں اس لئے اس میں بھی کوئی حرج نہیں،اسی طرح غیر اللہ کی قسم بھی شاید لغوی وعرفی قسم قرار پائے،ہر دور میں بدعات و خرافات کو سہارا
Flag Counter