Maktaba Wahhabi

105 - 534
 معاملات و معاہدات میں اعتبار مقاصد و معانی کا ہوتا ہے ناکہ الفاظ و مبانی کا ،جیسے مسائلِ بیوع میں مسلّمہ قاعدہ ہے کہ:’’العبرة فی العقود للمقاصدوالمعانی لا للألفاظ والمبانی‘‘۔ دوسری شرط:طرفین خرید و فروخت کی اہلیت و قابلیت رکھتے ہوں یہاں اہلیت و قابلیت سے مراد یہ ہے کہ عاقد (خریدار یا فروخت کنندہ ) اپنے مال وسامان سے متعلقہ امور میں تصرّفات کرنے کا اہل ہواور وہ جو بھی تصرّف کرے وہ نافذ العمل ہو، اُس کا اعتبار کیا جائے اوراس کےتصرّفات حکم کے اعتبار سے نتائج و اثر رکھتے ہوں ۔ اہلیت و قابلیت کے لئے مندرجہ ذیل پانچ اوصاف کا موجود ہونا ضروری ہے: پہلا وصف: وہ آزاد ہو غلام نہ ہو کیونکہ غلام کااپنے مالک کی اجازت کے بغیرخرید و فروخت کرنا شرعاً درست نہیں کہ وہ خود کسی کی ملکیت میں ہےجیساکہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہےکہ:’’جو کوئی غلام خریدے اور اس کے پاس مال ہوتو وہ اس کے خریدار مالک کی ملکیت ہے الا یہ کہ جس سے غلام خریدا گیا ہے وہ اسے مستثنیٰ رکھے‘‘۔ [1](دور حاضر میں غلام کا تصور نہیں ہے لہٰذا اس حوالہ سے مسئلہ کی تفصیل سے اجتناب کیا گیا ہے )۔ دوسرا وصف : کہ وہ بالغ ہو ،بچہ نہ ہو ۔ تیسرا وصف : کہ وہ عقل مند و باشعور ہو ، پاگل نہ ہو کیونکہ پاگل کا تصرّف درست نہیں۔ چوتھا وصف: کہ وہ سمجھدار ہوبے وقوف نہ ہو۔ جو اپنے مال میں صحیح تصرّف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو،بے مقصد اشیاء میں پیسے لٹانے والا نہ ہو اور مال و زر کی صحیح قیمت اور ویلیو (Value)وغیرہ سے واقف ہو ،جیسے سو کی چیز دس، بیس میں نہ بیچ ڈالے، لہٰذا بے وقوف کا تصرّف اُس کے سرپرست کی اجازت کے بغیر درست نہیں اور نہ ہی نافذ العمل ہے۔ بےوقوفی کا ضابطہ: اہلِ علم نے معاملات میں بےوقوفی کی پہچان کا یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ: جو لین دین میں اچھے و مناسب
Flag Counter