میں بھی شر یک رہیں گے یا پھر وہ بنو النضیر کے متر و کہ باغات سب کے سب مہاجر ین میں تقسیم کر دئیے جا ئیں،یوں وہ آئندہ تمہا رے گھروں سے علیحدہ رہیں گے،یہ بات سن کر انصا ر نے عر ض کیا: کہ یہ جا ئد اد ان میں تقسیم کر دیں : ہماری تمنا ہے کہ وہ ہما رے سا تھ رہیں اور ہمارے باغات میں سے بھی جو کچھ آ پ دینا چا ہیں ان کو دے دیں۔( قر طبی :ص۲۳ج۱۸،یحیی بن آ دم) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے رو ایت ہے کہ مہا جر ین نے انصا ر کے اس بے مثا ل ایثا ر کو دیکھ کر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کہ یا رسول اللہ! جس قو م کے پا س ہم آ ئے ہیں ان سے بڑھ کر ہم نے کسی کو ہمد رد،مخلص اور وفاشعا ر اور تنگی و فر اخی میں مد د گا ر نہیں دیکھا،ہمیں اند یشہ ہے کہ سب اجر و ثو اب تو انہیں مل جائے گا۔آپ نے فرمایا: نہیں جب تک تم ان کے لیے دعا کرتے رہو۔( احمد: ص۲۰۰ج۳،البدایہ: ص۲۲۸ج۳ وغیرہ) صحابہ کر ام رضی اللہ عنہ کے ایثا ر و قر با نی کی بے شمار داستا نیں سیرت و تا ریخ کی کتا بوں میں موجو د ہیں،یہ سب کچھ ضرورت سے ز ائد خرچ کر دینے کا جذبہ صا دقہ ہے،اور ان کے اسی اخلا ص و ایثا ر کی تعر یف اللہ تعالیٰ نے ان الفا ظ سے فر ما ئی کہ: ﴿ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَا مَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِینًا وَّ یَتِیْمًا وَّ أَسِیْرً اo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِ یْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّ لَا شُکُوْرًاo ﴾ ( الدھر: ۸،۹) وہ کھا نے کی چا ہت کے با وجو د محتاج،یتیم اور قیدی کو کھا نا کھلا تے ہیں،(اور کہتے ہیں : )ہم توصرف اللہ تعا لیٰ کے لیے کھلا تے ہیں،تم سے نہ بدلا چا ہتے ہیں نہ شکر یہ۔ آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مد ینہ طیبہ تشر یف لا ئے،تو دو ہجر ی میں با قاعدہ زکا ۃ فطر کا حکم دیا اور اسے ہر مسلما ن بڑا ہو یا چھو ٹا،مر د ہو یا عو رت،آ زاد ہو یا غلا م سب پر فر ض قرار دیا،کہ کھانے کی اشیا ء میں سے عید الفطر پڑھنے سے پہلے ایک صا ع ( تقر یبا اڑھائی کلو ) فقر اء و مساکین پر خیر ات کرے تا کہ وہ بھی عید کا دن مسرت و خو شی سے گز ار یں،اور طلب معا ش میں در در پر صدا کر نے سے بچیں،چند سا ل بعد جب فتوحات کا درو ازہ کھلا اور مسلما نوں کے ہا تھ یہو د کی چھو ڑی ہو ئی زمینیں اور با غات آئے تو حکم ہوا: ﴿ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا |