زیا دہ قید میں رکھنے وا لی چیز زبا ن ہے۔( مجمع الز و ائد ص۳۰۳ج۱۰،الزھد لا بن المبا رک ص۱۲۹ وغیرہ ) بلکہ عمر و بن دینار رحمہ اللہ سے مر سلا ً مرو ی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س ایک شخص کثرت سے باتیں کررہا تھا آپ نے اسے فر مایا: کہ تمہا ری زبان کتنے پردوں میں ہے ؟ اس نے عر ض کیا دو ہو نٹوں اور دانتوں (یعنی دوپر دوں )میں،آپ نے فرما یا: ان میں سے کسی نے بھی تمہیں کلا م کرنے سے منع نہیں کیا ؟
(المغنی للعرا قی :ص۱۱۲ج۳،علی الا حیا ء رجا لہ ثقا ت)
اما م ربیع بن خثیم رحمہ اللہ کا شما ر حضرت عبداللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ کے ارشد تلا مذہ میں ہو تا ہے،زبان کے با رے میں ان کے احتیاط کا یہ عا لم تھا کہ ان کی بیٹی نے ان سے کھیلنے کی اجا زت طلب کی جب اس کا اصرار بڑھا تو حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا: آ پ اجازت دے دیجئے،فرما یا:
’’ لا و اللّٰہ لا یکتب اللّٰہ علی الیوم انی أمرتھا تلعب ‘‘
اللہ کی قسم نہیں،اللہ تعا لیٰ آ ج کے رو ز میرے نامہ اعمال میں یہ نہ لکھ دیں کہ میں نے اسے کھیلنے کی اجازت دی تھی۔( الثقات للعجلی :ص۱۵۴)
اما م عا مر شعبی رحمہ اللہ کا بیا ن ہے کہ حضرت ربیع رحمہ اللہ جب سے تہبند با ندھنے لگے اس وقت سے کبھی بھی عا م مجلس میں یابا زار میں نہیں بیٹھتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی پر ظلم ہواور میں گواہی دینے میں پیچھے رہوں،یا کسی کا بھاری بو جھ نہ اٹھا سکوں،یاکو ئی سلا م کہے تو میں اس کا جو اب نہ دو ں،یا میں اپنی نگاہ نیچی نہ رکھ سکوں،یا بھو لے ہو ئے کو راستہ نہ بتلا ؤں،بس اس ڈر سے وہ ہمیشہ گھر میں بیٹھتے۔ان کے زہد وورع کی داستان طو یل ہے،اما م غز الی رحمہ اللہ نے لکھا ہے: کہ امام ربیع قلم و قر طا س پا س رکھتے جو بو لتے لکھتے جا تے،شا م ہو تی تو اس کا محاسبہ کر تے۔
اما م محمد بن و اسع رحمہ اللہ نے حضرت ما لک بن دینا ر رحمہ اللہ سے فرمایا:
یا أبا یحیٰی حفظ اللسا ن أشد علی الناس من حفظ الد ینار و الدرھم۔
|