Maktaba Wahhabi

148 - 187
آپ نے فرمایا: اِذا وسدالأمراِلی غیر أھلہ فانتظر الساعۃ۔جب نااہل کوکوئی منصب سونپ دیا جائے،تو پھر قیامت کا انتظار کرو،لہٰذا کسی کو کوئی ذمہ داری سونپنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اس کا اہل بھی ہے یا نہیں،اگر نااہل کو کوئی منصب دے دیا جائے تو یہ خیانت ہے،بیت اللہ کے چابی بردار عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ تھے،یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان مسلمان ہوئے تھے،تفسیر ثعلبی میں مذکور ہے کہ وہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے،بعض مفسرین نے بھی یہ بات نقل کی،حتی کہ علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم نے بھی لکھ دیا کہ وہ اسی وقت مسلمان ہوئے تھے۔(سیرت النبی ص ۲۱۰ج۶)حالانکہ یہ بالکل غلط ہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی تردید کی ہے اور اس قول کو منکر قرار دیا ہے۔(الاصابہ: ص ۲۲۰،۲۲۱ ج ۴) البتہ ان کے بھا ئی شیبہ بن طلحہ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہو ئے تھے۔فتح مکہ کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے بیت اللہ کی چابی طلب کی،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مطالبہ کیا کہ چابی مجھے عنایت فرمائی جائے،اس پس منظر میں اللہ سبحا نہ و تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓی أَھْلِھَا ﴾ (النساء:۸ ۵) اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں :کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کردو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چابی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لوٹا دی۔اس آیت میں بھی یہی حکم ہے کہ امانت اس کے حقداروں کے سپرد کرنا چاہیے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ جو مسلمانوں کا حاکم ہواور وہ محض اپنی قرابتداری اور محبت کی بنا پر کسی کو کوئی عہدہ سپرد کردیتا ہے تووہ اللہ،اس کے رسول اور مسلمانوں سے خیانت کا ارتکاب کرتا ہے۔امام حاکم رحمہ اللہ نے یہی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعا بھی نقل کی ہے مگر اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ (الضعفاء للعقیلی :۲۴۸ج ۱) حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :کہ حاکم کی مثال بازار کی سی ہے،اس میں جو چیز آئے وہی ملے گی،اگر وہ اس میں کذب،فسق و فجور،جورو ظلم اورخیانت لائے تو یہی چیزیں ملیں گی اگر صدق،عدالت،امانت لائے گا تو یہی چیزیں حاصل ہوں گی گویاحاکم
Flag Counter