کہ مجالس امانت کے ساتھ ہیں،مگر تین موقعوں پر،کسی کے ناحق قتل کی،یا کسی کی آبروریزی کی،یا کسی کا مال ناجائز طورپر لینے کی سازش۔ کسی مجلس میں ان تینوں میں سے کسی ایک کی سازش ہوتو متعلقہ لوگوں کو خبردار کردینا چاہیے،اس کا اظہار بددیانتی نہیں،بلکہ خیرخواہی اور اصلاح ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی سے یہ روایت بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا حدَّث الرجل بالحدیث ثم التفت فھی امانۃ۔(ابوداؤد،ترمذی : ج۳ص۱۳۳،احمد: ج۳ص۳۲۴،صحیح الترغیب: ج۲ص۴۵۴) جب کوئی کسی سے بات کررہا ہواور بات کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتا ہو کہ کوئی سن تو نہیں رہا،تو یہ بات امانت ہے اور ایسی بات کا اظہار خیانت ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ راز کی کوئی بات اس وقت ہی راز نہیں ہوتی جب اس کے بارے میں بتلایاجائے کہ یہ راز ہے،یا اسے ظاہر نہ کیاجائے،بلکہ وہ بات بھی راز ہے جو دوسرے سے بچتے ہوئے کسی سے کرتا ہے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ پہلے حضرت خنیس بن خزاعہ رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں،غزوہ بدر میں حضرت خنیس رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےحضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے حفصہ رضی اللہ عنہ کےنکاح کی پیشکش کی،مگر وہ خاموش رہے،اور فرمایا :کہ ابھی میرا کوئی ارادہ نہیں،اس کے بعد یہی پیشکش حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے رفیق خاص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کی،تو وہ بھی خاموش رہے،جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو رنج ہوا،اور سارا قصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردیا،آپ نے فرمایا: حفصہ رضی اللہ عنہ کی شادی اس سے ہوگی جو عثمان رضی اللہ عنہ سے بہتر ہے،اور عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح اس سے ہوگا جو حفصہ رضی اللہ عنہ سے بہتر ہے،اس کےبعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کر لیا،اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا اپنی لخت جگر ام کلثوم رضی اللہ عنہ سےنکاح کردیا۔اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نےحضرت عمر رضی اللہ عنہ سےفرمایا آپ کو میری خاموشی سے رنج ہوا تھا؟ میری خاموشی کا سبب یہ تھا رسول اللہ صلی اﷲعلیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہ کا ذکر مجھ سے کرچکے تھے،اور میں،لم اکن لافشی سر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولوترکھا لنکحتھا |