امام سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ نے کس قدر حقیقت پر مبنی بات فرمائی کہ من لم یکن لہ رأس مال فلیتخذ الأمانۃ رأس المال۔(شعب الایمان) جس کے پاس تجارت اور کاروبار کے لئے پونجی نہیں اسے چاہیے کہ امانت کو اپنی پونجی بنالے۔ظاہر ہے کہ امانت و دیانت کی پونجی سے ہی تاجر اپنا وقار بناتا ہے اور روزبروز اپنے کاروبار میں ترقی پاتا ہے،اس کے برعکس جو دیانت کا اہتمام نہیں کرتا،اپنا وقار کھو بیٹھتا ہے،اور ایک نہ ایک روز اس کے کاروبار کا بھٹا بیٹھ جاتا ہے۔
تجارت میں امانت کا تقاضا ہے کہ اگر کسی چیز کو فروخت کرتے ہوئے عیب پایاجائے تو خریدار کو اس سے خبردار کردے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ کوئی عیب ناک چیز فروخت کرے،مگر اس کا عیب بیان نہ کرے۔ (احمد،حاکم،صحیح الترغیب: ج۲ص ۳۳۸)
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بائع اور مشتری اگر سچ کہیں اور کوئی عیب نہ چھپائیں تو ان کی تجارت میں برکت ہوگی،اور اگر دونوں نے جھوٹ بولا اور عیب کو چھپایا تو برکت اٹھالی جائے گی۔(بخاری :ج۱ص۲۷۹) حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: کہ جو کوئی بلا وضاحت عیب ناک چیز فروخت کرتا ہے وہ اللہ کے غضب میں رہتا ہے،اوراللہ کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔(ابن ماجہ: ص۱۶۳)
حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راو ی ہیں،انہی کے بارے میں ابوسباع رحمہ اللہ کا بیان ہے: کہ میں نے حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ کے ہاں سے اونٹنی خریدی،میں جب اونٹی لیکر وہاں سے نکلا،تو حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ میرے پاس تشریف لائے،اور فرمایا: تم نے یہ اونٹنی خرید کرلی ہے،میں نے کہا: جی ہاں،انہوں نے فرمایا: اس میں ایک عیب ہے،میں اس سے تمہیں آگاہ کرنا چاہتا ہوں،میں نے کہا وہ کیا،انہوں نے فرمایا: یہ بظاہر بڑی صحت مند ہے،تم اسے ذبح کرنا چاہتے ہو یا اسے سفر میں سواری کے لئے خریدا ہے،میں نے کہا: حج پر جانے کا ارادہ ہے،اور سواری کے لئے میں نے اسے خرید ا ہے،انہوں نے فرمایا: پھر آپ اسے واپس کردیں،اونٹنی کے مالک نے کہا: اللہ آپ کا بھلا کرے آپ خرابی کررہے ہیں،
|