البصر (بخاری ج۲ص۹۲۲ ومسلم ج۲ص۲۱۲ )
اگر مجھے معلو م ہو جاتا کہ تو دیکھ رہا ہے تو میں اسے تیری ا ٓنکھ میں دے ما رتا،اجا زت تو آنکھ ہی کی بنا پر طلب کی جا تی ہے۔
اگر آ نکھ سے گھر کے اند ر دیکھ ہی لیا تو پھر اجا زت کے کیا معنی ؟بلکہ حضرت ابوہر یرۃ رضی اللہ عنہ سے مر و ی ہے کہ اگر کو ئی شخص بغیر اجا زت کے گھر کے اند ر دیکھے اور اہل خا نہ کنکر ی اٹھاکر اسے دے ما ریں،جس سے اس کی آ نکھ زخمی ہو جا ئے تو اس پر کو ئی گناہ نہیں ہو گا۔( بخاری :ج۲ص۱۰۲۰ و مسلم :ج۲ص۲۱۲ ) بلکہ صحیح مسلم اور مسند احمد میں ہے،اہل خا نہ کیلئے جا ئز ہے کہ وہ اس کی آ نکھ پھو ڑ دیں اور ایک حدیث کے الفاظ ہیں :
من اطّلع فی بیت قو م بغیر اذنھم نفقؤا عینہ فلا دیۃ لہ ولا قصاص۔(نسا ئی،صحیح التر غیب :ج۳ص۳۵)
کہ جو شخص کسی کے گھر بغیر ان کی اجا زت دیکھتا ہے اوراہل خانہ اس کی آ نکھ پھو ڑ دیتے ہیں تو اس کی نہ ہی دیت ہے اور نہ ہی قصاص۔
غور کیجئے اگر ظا لم کسی کی ایک آ نکھ نکا ل دے تو اس سے قصا ص لیا جا ئے گا اور قصاص میں اس کی آ نکھ نکال لی جا ئے گی،یا اس سے پچا س او نٹ یعنی نصف دیت و صو ل کی جا ئے گی،لیکن اگر یہی آ نکھ دیا نت وامانت کا مظا ہرہ نہیں کرتی،کسی کے گھر دا خل ہو جا تی ہے،تو اس کی قدر ومنزلت ختم ہو جا تی ہے،بالکل اسی طر ح جیسے اگر کو ئی ہا تھ ربع دینا ر یعنی ایک چو تھا ئی دینا ر کے برا بر چو ری کر ے تو اسے کا ٹ دینے کا حکم ہے،لیکن اگر کوئی کسی کا ہاتھ ظلما کا ٹے تو اس سے نصف دیت وصو ل کی جا ئے گی،اسلا م معاشر ے کو امن و سکو ن اور اما نت و دیا نت کا گہو ارہ بنا تا ہے جواس میں رخنہ اندازی کی کو شش کرتا ہے،اسے نا سو ر کی طر ح کا ٹ دینے کا حکم دیتا ہے۔گھر تو بنا یاہی اس لئے جاتا ہے کہ اہل خا نہ کی جان و مال اور عزت اس میں محفو ظ رہے،اگر کو ئی باہر سے گھر کے اندرکانظارہ کرتاہے اور پردہ نشین عو رتوں کے لئے پریشا نی کا موجب بنتا ہے تو اسلام اس کی آ نکھ کی ضما نت نہیں دیتا۔
٭٭٭
|