Maktaba Wahhabi

454 - 534
حدیث میں ادھار لین دین کی جو شرائط مقرر کی ہیں وہ اسطرح ہیں "من أسلف في شي فليسلف في كيل معلوم و وزن معلوم إلى أجل معلوم"[1] یعنی ادھار سودے میں کیل یا وزن اور اس کی ادائیگی کا وقت معین کرنا لازم ہے ۔ یعنی قیمت بھی ایک ہو یعنی ادھار کی وجہ سے قیمت میں اضافہ نہ ہو اس کا ذکر نہیں ہے ۔ میرے علم کے مطابق مذاھب اربعہ اور محدثین عظام کی اغلب تعداد ادھار کی صورت میں قیمت میں زیادتی کے جواز کے قائل ہیں ۔ دوسر ی بات یہ ہے کہ قیمت میں کمی یا زیادتی کبھی نقد سودے کی صورت میں بھی ہوجاتی ہے ۔ جیسا کہ تھوک اور پرچون کی قیمت مقدم ادا کرنے کی صورت میں بھی قیمت عموما کم ہوتی ہے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ کیا کسی چیز کی قیمت طے کرنے میں مدت کی بھی تاثیر ہوتی ہے ۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے مفصل بحث کے بعد اسی موقف کو ترجیح دی ہے کہ ادھار کی صورت میں مدت کا قیمت میں حصہ ہوتاہے ۔ مانعین کا معروف حدیث " من باع فی بیعتین....الخ[2]" یا "نهي عن بیعتین...الخ"[3] سے استدلال میرے خیال کے مطابق محل نظر ہے ۔مذکورہ الفاظ کی تفسیر میں متعدد اقوال ملیں گے ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سے ایک چیز کی نقد قیمت کم اور ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ مراد ہے۔ حالانکہ عملا ایسا ممکن نہیں ہے ۔ سودا ایک ہی قیمت پر طے ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث سے مراد بیع العینہ ہی ہے اور امام ابن القیم رحمہ اللہ تھذیب السنن میں فرماتے ہیں کہ ’’جو
Flag Counter