Maktaba Wahhabi

366 - 534
کا شکار ہےپھر بھی آج تک تمام فوجی وسول حکومتیں ان اراضی کی منصفانہ اصلاح و تقسیم میں نا کام نظرآئی ہیں اوردنیا میں جہاں کہیں بھی حکومتیں اراضی کی اصلاحات متعارف کرانے میں ناکام ہوئی ہیں وہاں بے روزگاری، شورش اور خانہ جنگی نے بار بار جنم لیا ہے۔ روس، ویت نام اور چین میں دیہی علاقوں کے عدمِ اطمئنان کی وجہ سے ہی کیمونسٹوں نے حکومتوں کا تختہ اُلٹا تھا۔ ماضی قریب میں سُوڈان، نیپال، زمبابوے، ایل سلواڈور اور پیرو کے تنازعات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کس طرح زمین کی مِلکیت اور استعمال کا عرصہ نسلی اور طبقاتی تشدد کو ہوا دینے کے لئے استعمال ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی بالکل ایسی ہی صورت حال ہےزمین کی ملکیت نہ ہونا پاکستان کے دیہی علاقوں میں غربت اور بھوک کی بلاشبہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ تقریباً 70 فیصد دیہی آبادی کے پاس اپنی اراضی نہیں ہے اور پاکستان کی کل اراضی کی71فیصد Agricultural Irrigated Land زمین کو قابل کاشت Arable Landبنایاجا سکتا ہے۔جوکہ 1975میں تقریباً6کروڑ84لاکھ پاکستانیوں کیلئے 595.19Million Hectorتھی یعنی کل قابل کاشت اراضی کاصرف 21فیصد اور آج تقریباً 19 کروڑ پاکستانیوں کیلئے 30.20 Million Hectorیعنی کل قابل کاشت اراضی کا صرف 23 فیصدہے۔ اس23فیصد رقبہ کا47فیصدخواص کے پاس ہے اورباقی اراضی اسوقت عوام کی ملکیت ہے اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ برّصغیر ہند میں برطانوی قانون کے تحت نجی جائیداد رکھنے کے حقوق بنیادی طور پر جاگیر داروں کو دیئے گئے تھے جس کا مقصد ان کی حمایت حاصل کرنا تھا اور آزادی ملنے کے بعد بھی پاکستان کی حکومتوں نے جاگیرداروں کے طبقہ اشرافیہ کو نوازنے کے لئے ان قوانین کو برقرار رکھا ہے جن میں سے بہت سے جاگیر دار معروف سیاست دان بن چکے ہیں اِسی لئے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ملک میں اصلاحاتِ اراضی کی کوششیں غیر مُنظم اور غیر مؤثر ثابت ہوتی رہی ہیں۔[1] کیاوجہ ہے کہ پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظامIrrigation System ہےاورپاکستان کے68فیصد علاقوں میں سالانہ برساتAnnual Rain Fall 250ملی میٹر ہے اور24فیصد
Flag Counter