Maktaba Wahhabi

365 - 534
للضعيف فيهم حقه‘‘[1]معنی کے لحاظ سے حدیث اگرچہ صحیح ہےلیکن اس حدیث کے راوی یحیٰ نےسیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کو نہیں پایا تھا چنانچہ جیسے حربی اور ابی حاتم نے فرمایا ہےکہ اگر ایسا نہیں ہوتا تو روایت صحیح تھی۔[2] (2) علقمہ بن وائل اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرموت کے علاقے میں انہیں ایک قطعہ زمین عطا کیا‘‘۔[3] (3) ابیض بن حمال سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور چاہا کہ نمک کی وہ کان جو مآرب میں تھی جاگیر کے طورپران کو دے دیں تو آپ نے ان کوعطاکر دی ۔ جب وہ چلنے لگے تو مجلس میں سے ایک شخص بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :’’کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے اسے کیا دے دیا؟ آپ نے اس کو نہ ختم ہونے والا پانی دے دیا !چنانچہ یہ سن کر آپ نے اسے واپس لے لیا۔ اس کے بعدانہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ پیلو کے درخت کی کو نسی زمین گھیری جائے؟ [جہاں لوگ اور ان کے جانور نہ آسکیں] آپ نے فرمایا جہاں اونٹوں کے قدم نہ پہنچ سکیں۔ [یعنی جو آبادی اور چرا گاہ سے الگ ہو]۔[4] یہ اقطاع اراضی کی عہد نبوی کی چند مثالیں ہیں ان کےعلاوہ بھی کئی مثالیں موجود ہیں جو اس عمل کے جواز کی واضح دلیل ہیں اوراس کےبعد بھی امام المسلمین لوگوں کو ان کے جذبہء خدمت کو سراہتے ہوئے یا مستحقین کی مالی اعانت کے طورپرزمینیں عطاکیا کرتے تھےلیکن پس منظر میں اقطاع اراضی کا مقصد زمین کی آباد کاری اور زراعت کی افزائش بھی ہوتا تھا۔یہ بعد کے اقطاع اراضی کے نظام سے بالکل مختلف تھا جس میں اچھی اور آباد زمینیں اقرباء میں تقسیم ہوتیں یالوگوں کی وفاداریاں خریدنے کیلئے دی جاتی تھیں،اس قسم کی اقطاع اراضی کے اموی دور سے لیکر ہندوستان میں مغل ادوار تک کے قصے زبالۃالتاريخ میں بھرے پڑے ہیں۔ لیکن دور حاضرمیں وطنِ عزیز کا کیاالمیہ ہے؟یہاں تو عوام کی حکومت عوام پر ہے اور معیشت زبوں حالی
Flag Counter