Maktaba Wahhabi

234 - 534
إذا كانت العقدة على أحد منهما۔‘‘[1] 209 } ’’بعض اہل علم نے اس حدیث کی یہ وضاحت کی ہے کہ ایک سودے میں دو سودوں کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کہے کہ میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس درہم کا اور ادھار میں بیس درہم کا بیچتا ہوں اور کسی ایک بیع کو طے نہ کرے پس جب ان دونوں میں کسی ایک بیع کو طے کر دے گا تو پھر کوئی حرج نہیں ورنہ جہالت ثمن کی وجہ سے جائز نہیں‘‘۔ (2)یہی توجیہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول ہے: " إذا قلت: أبِيعك بالنقد إلى كذا، وبالنسيئة بكذا وكذا، فذهب به المشتري، فهو بالخيار في البيعين ما لم يكن وقع بيع على أحدهما، فإن وقع البيع هكذا، فهذا مكروه، وهو بيعتان في بيعة، وهو مردود، وهو الذي ينهى عنه.‘‘[2] یعنی ’’جب تو کہے کہ میں تمہیں یہ چیز نقد میں اتنے روپے کی دیتا ہوں اورادھار میں اتنے روپے کی اب خریدار اسے لے گیا پس وہ با اختیار ہے دونوں میں سے کسی ایک بیع کو اختیار کرنے پر۔جب تک کسی ایک بیع پر فیصلہ نہیں ہواہو اگریہ بیع اسی طرح برقرار رہے تو یہ مکروہ ہے اور یہ ایک سودے میں دو سودے کہلائیں گے۔ اور یہ مردود ہے اور اسی سے روکا گیا ہے‘‘۔ (3)امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "وتفسير ما نهى عنه من بيعتين في بيعة على وجهين: أحدهما: أن يقول: بعتك هذا الثوب نقدا بعشرة، أو نسيئة بخمسة عشر، فهذا لا يجوز؛ لأنه لا يدري أيهما الثمن الذي يختاره منهما فيقع به العقد، وإذا جهل الثمن بطل البيع". [3] یعنی: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک سودے میں دو سودوں سے منع کیا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں : ایک یہ کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے تمہیں یہ کپڑا نقد میں دس درہم کا اور ادھار میں پندرہ درہم کابیچا ۔ یہ ناجائز ہے اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کس قیمت کو اس نے اختیار کیا ہے ،اورکس پر عقد
Flag Counter