Maktaba Wahhabi

233 - 534
ان ا حادیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ قیمت کے فرق کے ساتھ نقد و ادھار بیع جائز نہیں ۔لہٰذا ہم بتوفیق اللہ و عونہ اس حدیث کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے اس مسئلے کے حکم کو ائمہ سلف کے اقوال کی روشنی میں واضح کریں گے۔ اولاً :یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ نقد و ادھار بیع میں قیمت کا فرق شرعا ًبلا کسی کراہت کے حسب ذیل وجوہ کی بناء پر جائز و حلال ہے ۔ (1)شرعا ایسی کوئی نص نہیں جس میں نقد و ادھار ایک ہی قیمت پر فروخت کرنے کا حکم دیا گیا ہو ۔ (2)شرعا نقد بیع میں منافع کو متعین (fixed)نہیں کیا گیا ،تو ادھار میں نقد والے منافع کو متعین کر دینا بلا دلیل ہو گا جو کہ صحیح نہیں ہے۔ (3)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام آپس کی تجارت میں نقد وادھار کے لئے ایک ہی قیمت رکھتے تھے اسکاصراحۃ ً یا اشارۃ ً کہیں کا ذکر ملتا ہو ،راقم کی نظر سے نہیں گذرا۔ ان نکات کو سمجھنے کے بعد اب ہم مذکورہ بالاروایتوں ( جن کی بناء پر بعض اہل علم یہ مؤقف رکھتے ہیں کہ نقد و ادھار کا ریٹ ایک ہی ہونا چاہئے)کی صحیح توضیح و مفہوم اہل علم کے اقوال کی روشنی میں بیان کرتے ہیں ، تا کہ مسئلہ سمجھنا مزید آسان ہو جائے ۔نیز اس مسئلے کی توضیح مختلف جہات سے ہدیہ قارئین ہے۔ اولا: اس روایت میں ایک ہی چیز کی بیع دو سودوں کے ساتھ یا دو شرطوں کے ساتھ منع کی جا رہی ہے۔ جبکہ نقد بیچی جانے والی چیز نقد میں ایک بیع ہے اور وہ جائز ہے ۔اسی طرح ادھار بیچی جانے والی چیز ادھار میں ایک بیع ہے اور وہ بھی جائز ہے ۔ بیک وقت دونوں کا ریٹ بتا دیا جائے اور مشتری وہ چیز اس بات کی وضاحت کئے بغیر لے جاتا ہے کہ سودا نقد ریٹ پر ہو یا ادھار پر تو یہ بیع جہالت ثمن ہونے کے سبب منع ہے یہی اسکی توضیح متعدد علماء نے کی ہے : (1) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "وقد فسر بعض أهل العلم، قالوا: بيعتين في بيعة، أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة، وبنسيئة بعشرين، ولا يفارقه على أحد البيعين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس
Flag Counter