Maktaba Wahhabi

235 - 534
واقع ہوا ہے ۔لہٰذا جب قیمت مجہول ہو تو بیع باطل ہے‘‘۔ (4)یہی بات امام ابن اثیر رحمہ اللہ نے "النهاية" میں ذکر کی ہے ۔ (5)امام شافعی رحمہ اللہ اس کا معنی تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " ومن معنى نهي النبي صلى اللّٰه عليه وسلم عن بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك داري هذه بكذا على أن تبيعني غلامك بكذا، فإذا وجب لي غلامك وجب لك داري، وهذا يفارق عن بيع بغير ثمن معلوم، ولا يدري كل واحد منهما على ما وقعت عليه صفقته" { FR 210 }[1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سودے میں دو سودوں میں روکنے کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ میں تمہیں اپنا گھر بیچتا ہوں اتنے کا، اس شرط پر کہ تم اپنا غلام مجھے بیچ دو اتنے کا۔اب جب آپ کا غلام میراہوجائے گا تو میرا گھر آپ کا ہو جائے گا۔اور یہ بیع اس لئے نا جائز ہے کہ یہ بیع ثمن معلوم کے بغیر واقع ہوئی ہے۔(یعنی قیمت کا علم نہیں)اور ان میں سے کوئی نہیں جانتا کس پر انکی بیع واقع ہوئی‘‘ ۔(یعنی قیمت کسی چیز کو ٹھہرایا) (6)امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کا مصداق ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ۔ "و في السنن عن النبی صلی اللّٰه عليه وسلم أنه قال :"من باع بيعتين في بيعة فله أوكسهما أو الربا فيه عن النبی صلی اللّٰه عليه وسلم أنه قال إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر و ترکتم الجهاد في سبيل اللّٰه أرسل اللّٰه عليکم ذلا لا يرفعه عنکم حتی ترجعوا الی دينکم وهذا کله في بيعة العينة وهو في بيعة". [2]یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان : "من باع بيعتين في بيعة ۔۔۔۔"الخ[3] (یعنی جو دو بیع کرتا ہے ایک بیع میں پس یا تو وہ کم قیمت لے ورنہ سود ہے ) "اذا تبايعتم بالعينة۔۔۔"الخ[4] (یعنی جب تم بیع عینہ
Flag Counter