Maktaba Wahhabi

650 - 871
’’إن علي بن أمر اللّٰہ المعروف بابن الحنائي القاضي بالشام،حضر مرۃ درس الشیخ العلامۃ بدرالدین الغزي،لما ختم في الجامع الأموي من التفسیر الذي صنفہ،وجری فیہ بینھما أبحاث،منھا اعتراضات السمین علیٰ شیخہ،فقال الشیخ: إن أکثرھا غیر وارد،وقال علي: والذي في اعتقادي إن أکثرھا وارد،وأصرا علیٰ ذلک،ثم إن علیا کشف عن ترجمۃ السمین فرأی أن الحافظ ابن حجر وافقہ فیہ،حیث قال في الدرر الکامنۃ: صنف في حیاۃ شیخہ،وناقشہ فیہ مناقشات کثیرۃ،غالبھا جیدۃ،فکتب إلی الشیخ أبیاتا یسألہ أن یکتب ما عثر الشہاب من أبحاثہ،فاستخرج عشرۃ منھا،و رجح فیھا کلام أبي حیان،وزیف اعتراضات السمین علیھا،وسماہ بالدر الثمین في المناقشۃ بین أبي حیان والسمین،وأرسلھا إلیٰ القاضي،فلما وقف انتصر للسمین،ورجح کلامہ علیٰ کلام أبي حیان،وأجاب عن اعتراضات الشیخ بدرالدین،ورد کلامہ في رسالۃ کبیرۃ،وقف علیھا علماء الشام و رجحوا کتابتہ علیٰ کتابۃ البدر،وأقروا لہ بالفضل والتقدم‘‘[1] انتھیٰ۔ [قاضی علی بن امر اللہ المعروف بابن الحنائی رحمہ اللہ ایک مرتبہ شیخ علامہ بدرالدین الغزی رحمہ اللہ کے درس میں اس وقت حاضر ہوئے،جب انھوں نے جامع اموی میں وہ تفسیر مکمل کی،جس کو انھوں نے تصنیف کیا تھا۔اس سلسلے میں ان کے درمیان کچھ بحثیں ہوئیں،ان میں سے ایک سمین رحمہ اللہ کے اپنے شیخ پر اعتراضات کی بحث تھی۔شیخ رحمہ اللہ نے کہا کہ ان میں سے اکثر اعتراضات ایسے ہیں،جو سمین رحمہ اللہ کے اپنے شیخ پر وارد نہیں ہوتے۔اس پر علی رحمہ اللہ نے کہا کہ میرا تو اعتقاد یہ ہے کہ ان میں سے اکثر اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔دونوں نے اپنی بات پر اصرار کیا،پھر علی رحمہ اللہ نے سمین رحمہ اللہ کا ترجمہ نکالا تو اس میں دیکھا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس میں اس کی موافقت کی ہے اور’’الدرر الکامنۃ‘‘ میں کہا
Flag Counter