Maktaba Wahhabi

740 - 871
﴿بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتْ بِہٖ خَطِیْٓئَتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ﴾ [البقرۃ: ۸۱] [ کیوں نہیں ! جس نے بڑی برائی کمائی اور اسے اس کے گناہ نے گھیر لیا تو وہی لوگ آگ والے ہیں،وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ] اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ ہر مذہب میں اس کے زمانے کے مصالح کے مناسب احکام دیے گئے اور قانونِ شریعت بنانے میں قوم کی عادات و اطوار کا لحاظ رکھا گیا اور اس پر ہمیشہ اعتقاد رکھنے اور عمل کرنے کی تاکید کی گئی۔پھر انہی پر سچائی کو منحصر رکھا تو اس سے مراد صرف یہ تھی کہ اس زمانے میں سچائی صرف انہی باتوں پر منحصر ہے۔وہاں ہمیشگی سے مراد ظاہری ہمیشگی تھی نہ کہ حقیقی ہمیشگی۔یعنی مطلب یہ تھا کہ جب تک دوسرا نبی نہ آئے اور اس کے چہرۂ نبوت سے پردہ نہ اٹھ جائے۔تب تک ہمیشہ ان احکام پر عمل واجب ہو گا۔مگر یہودیوں نے اس ظاہری ہمیشگی سے یہ سمجھ لیا کہ یہودیت منسوخ ہونے کے لائق نہیں ہے،حالانکہ یہودیت کی پیروی کی وصیت ایمان اور اعمالِ صالحہ پر قائم رہنے کے لیے کی گئی تھی۔اس مذہب کی کوئی ذاتی خصوصیت معتبر نہیں،مگر ان لوگوں نے خصوصیت کا اعتبار کر کے یہ گمان کر لیا کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو یہودیت ہی کی وصیت فرمائی تھی۔ تیسری مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ملت میں انبیا اور ان کے تابعین کو مقرب اور محبوب کا لقب بخشا ہے اور جن لوگوں نے ملت کا انکار کیا،ان کی مذمت برے الفاظ میں کی ہے۔دونوں صورتوں میں ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں،جو ان کی قوم میں مستعمل تھے،تو اگر محبوب کے بجائے ابن کہہ دیا تو تعجب نہ ہونا چاہیے،مگر اس سے یہودیوں نے یہ خیال کر لیا کہ یہ شرف صرف یہودی،عبری اور اسرائیلی ناموں کے ساتھ مخصوص ہے اور یہ نہ سمجھا کہ اس سے مراد اطاعت،خضوع اور اللہ کی مرضی کے مطابق چلنا ہے،جس کے لیے اس نے انبیا مبعوث فرمائے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی فاسد تاویلیں ان کے دلوں میں جڑ پکڑ چکی تھیں،جنھیں وہ اپنے آباو اجداد سے سنتے چلے آتے تھے۔قرآن مجید نے پوری طرح ان باتوں کی قلعی کھول دی۔ کتمانِ آیات: اس کامطلب یہ ہے کہ یہودی تورات کی اصل آیات اس وقت چھپاتے تھے،جب کسی معزز
Flag Counter