Maktaba Wahhabi

409 - 871
سورۃ الأحقاف: حسن،جابر اور عکرمہ رحمہ اللہ علیہم کے نزدیک یہ سورت مکی ہے۔یہ موقف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادہ رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے،مگر ایک آیت مدنی ہے اور وہ اﷲ کا ارشاد: ﴿قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا،إلیٰ آخرھا﴾ ہے۔[1] اس میں دوآیتیں منسوخ ہیں۔ پہلی آیت: ﴿مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلاَ بِکُمْ اِِنْ اَتَّبِعُ اِِلَّا مَا یُوحٰٓی اِِلَیَّ وَمَآ اَنَا اِِلَّا نَذِیْرٌ مُّبِیْن﴾ [الأحقاف: ۹] [میں رسولوں میں سے کوئی انوکھا نہیں ہوں اور نہ میں یہ جانتا ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ (یہ کہ) تمھارے ساتھ (کیا) میں تو بس اس کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کیا جاتا ہے اور میں تو بس واضح ڈرانے والا ہوں ] کہتے ہیں کہ ﴿لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّر﴾ [الفتح: ۲] [تاکہ اللہ تیرے لیے بخش دے تیرا کوئی گناہ جو پہلے ہوا اور جو پیچھے ہوا] سے منسوخ ہے۔یہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے۔’’فتح القدیر‘‘ میں آیت کا معنی یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ زمانہ مستقبل میں کیا کیا جا ئے گا،میں مکہ ہی میں رہوں گا کہ یہاں سے باہر چلا جاؤں گا،میری موت ہوگی یا مارا جاؤں گا اور تمھیں جلد عذاب دیاجا ئے گا یا مہلت دیے جاؤ گے۔یہ سب دنیا میں ہے،لیکن آخرت میں تو یقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت جنت میں ہوگی اور کافر جہنم میں ہوں گے۔یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نہیں جانتا کہ قیامت کے روز میرے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ جب یہ آیت اتری تو مشرکین نے تنقید کی کہ ہم کیسے اس پیغمبر کی پیروی کریں،جو خود نہیں جانتا کہ اس کے اور ہمارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا؟ اس کی ہمارے اوپر کوئی فضیلت نہیں ہے،پھر ﴿لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ﴾ اتری۔مگر پہلا معنی اولیٰ اور بہترہے۔[2]
Flag Counter