Maktaba Wahhabi

874 - 871
پڑی ہے۔شیعہ لوگ اہلِ سنت کے مقابلے میں آ کر اس کی روایات کا اکثر سہارا لیتے ہیں۔موصوف ۴۲۷ھ؁ میں وفات پا گئے۔ 3۔ سید مرتضیٰ علم الھدی صاحبِ’’درر غرر‘‘ ان کا نام ابو القاسم علی بن حسین بن موسیٰ ہے۔یہ شیعہ مذہب رکھتا تھا۔اس نے ۴۳۶؁ھ میں وفات پائی۔ 4۔ ابو محمد عبداللہ جوینی رحمہ اللہ والد امام الحرمین رحمہ اللہ،ان کی تفسیر ‘‘کبیر‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔جوین تصغیر ہے اور یہ نیشاپور کا ایک علاقہ ہے۔اس تفسیر کا مولف ۴۳۸ھ؁ کو فوت ہوا۔ 5۔ ابو القاسم عبدالکریم قشیری رحمہ اللہ صاحبِ’’التیسیر في علم التفسیر‘‘ اس تفسیر کا مولف واعظ تھا۔ابو الحسن باخرزی رحمہ اللہ کہتا ہے کہ اگر اس کے بیان و وضاحت کی آواز کے ساتھ پتھر پر چوٹ لگائی جائے تو وہ پگھل جائے اور اگر شیطان کو اس کی مجلس میں باندھ دیا جائے تو وہ توبہ کر لے۔موصوف ۴۶۵؁ھ میں فوت ہوئے۔ 6۔ واحدی نیسا بوری رحمہ اللہ۔ان کا نام ابو الحسن بن احمد ہے،ان کی تین تفسیریں ہیں : کبیر،بسیط اور صغیر۔انھوں نے بعد میں تینوں کو اکٹھا کر کے اس کا نام’’الحاوي‘‘ رکھا۔موصوف ۴۶۸؁ھ میں فوت ہوئے۔ اکثر اہلِ علم تفاسیر سے نقل کرنے میں مساہلت کا مظاہرہ کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ بات نیسابوری میں ہے،جب کہ مولف کا نام نہیں لیتے۔اس طرح کی نقل تصحیح و تحقیق کی محتاج ہوتی ہے۔ چھٹا طبقہ: امام سیوطی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ پھر ایسے لوگوں نے تصنیفات لکھیں،جو چند علوم میں ماہر تھے۔ان میں سے ہر ایک اپنے اس فن کی بنا پر کوتاہی کرتا،جس فن کا اس پر غلبہ ہوتا۔مثلاً نحوی کو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کی توجہ اعراب،اس میں بہت سی احتمالی وجوہ اور قواعدِ نحو،اس کے مسائل،فروع اور اس کی خلافیات کے نقل کرنے کی طرف ہوتی ہے،جیسے زجاج اور واحدی رحمہما اللہ اپنی بسیط میں اور ابو حیان رحمہ اللہ’’البحر والنہر‘‘ میں۔آپ اخباری کو دیکھیں گے کہ جس کا شغل قصوں کو ان کی تمام تر جزئیات کے ساتھ مکمل بیان کرنا اور گذشتہ حالات کی خبر دینا ہے۔قطع نظر اس بات کے کہ وہ قصے اور خبریں صحیح ہوں یا باطل،جیسے ثعلبی رحمہ اللہ ہے۔اسی طرح فقیہ کہ وہ تفسیر میں باب الطہارۃ سے لے کر امہات الاولاد
Flag Counter