Maktaba Wahhabi

569 - 871
حکایات کی خصوصیات ہیں۔ یہ تھا ان گمراہ فرقوں کی گمراہیوں کو بیان۔آیاتِ مخاصمہ کے معانی کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی بیان کافی ثابت ہو گا۔إن شاء اللّٰہ تعالیٰ۔ تذکیر بآلاء اﷲ: جب نزولِ قرآن کا مقصد انسانی جماعتوں کی اصلاح و تہذیب ہے،وہ جماعتیں عرب کی ہوں یا کسی اور ملک کی،وہ شہری ہوں یا بدوی،تو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ کاملہ سے’’تذکیر بآلاء اللّٰہ‘‘ کے سلسلے میں بنی آدم کے اکثر افراد کی معلومات کا لحاظ رکھا ہے اور بحث و تحقیق میں زیادتی نہیں کی ہے۔اس نے اپنے اسما و صفات کو ایسے طریقے سے بیان فرمایا ہے،جسے عوام کے فطری فہم سمجھ سکیں اور اس کے لیے فلسفۂ الہٰیات اور علمِ کلام کی ضرورت نہ رہے۔پس قرآن مجید میں ذاتِ باری تعالیٰ کا اثبات بہ طورِ اجمال ہے،کیوں کہ تمام افرادِ بنی آدم کی فطرت میں اس کا علم شامل ہے۔معتدل اور متوسط درجے کے ملکوں میں کسی گروہ کو تم اللہ کا منکر نہیں پاؤ گے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو حقائق کی تحقیق کے ذریعے سے ثابت کرنا محال تھا اور پھر یہ بات بھی تھی کہ اگر لوگ صفاتِ الٰہیہ سے مطلع نہ ہوں گے تو انھیں ربوبیت کی معرفت بھی حاصل نہ ہوگی،جو تہذیب و اصلاحِ نفس کے لیے مفید ترین شے ہے،اس لیے حکمتِ خداوندی نے انسان کی صفاتِ کاملہ سے ان صفات کا انتخاب کر لیا،جسے سب جانتے اور قابلِ تعریف سمجھتے ہیں۔پھر ان کو ایسے دقیق معانی کی جگہ استعمال کیا جن کی عظمت کی بلندی تک انسان کی عقل نہیں پہنچ سکتی۔اس ضمن میں ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ [اس کی مثل کوئی چیز نہیں ] کہہ کر جہل مرکب کے سخت مرض کے لیے تریاق مہیا کر دیا ہے۔جو بشری صفات اللہ تعالیٰ کے لیے مناسب نہیں تھیں اور جن سے غلط اوہام،باطل عقائد پیدا کر سکتے تھے،وہ ممنوع کر دیے گئے،مثلاً بیٹے کا ہونا،رونا اور بے صبری کا مظاہرہ کرنا۔ یقینا اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا علم توقیفی ہے اور اس میں من مانی گفتگو کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اس کی قدرت کی نشانیوں سے متعلق صرف وہی باتیں بیان کی گئی
Flag Counter