Maktaba Wahhabi

377 - 871
ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اپنا کام کھل کر کرو،ان کی سرزنش سے اعراض کرو اور مشرکین کی طرف توجہ نہ دو کہ وہ اسلام کی دعوت پر تمھیں سرزنش کرتے ہیں۔اس معنی کا موکد اس کے بعد کا جملہ ﴿اِنَّا کَفَیْنٰکَ الْمُسْتَھْزِئِ یْن﴾ہے۔ سورۃ النحل: حسن،عطا،عکرمہ،جابر رحمہ اللہ علیہم،سیدنا ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے قول کے مطابق پوری سورت مکی ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت میں ہے کہ اس کے آخر کی تین آیات کے سوا جو مکے اور مدینے کے درمیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احد سے واپس آتے ہوئے اتریں،ساری سورت مکی ہے۔[1] اس سورت کا نام’’سورۂ نعم‘‘ بھی ہے۔ا س میں دو یاتین حکم منسوخ ہیں اور بعض کے نزدیک پوری محکم ہے۔ پہلی آیت: ﴿وَ مِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَ الْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا وَّ رِزْقًا حَسَنًا﴾ [النحل: ۶۷] [اور کھجوروں اور انگوروں کے پھلوں سے بھی،جس سے تم نشہ آور چیز اور اچھا رزق بناتے ہو] کہتے ہیں کہ یہ آیت اس آیت: ﴿اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْم﴾ [الأعراف: ۳۳] [میرے رب نے تو صرف بے حیائیوں کو حرام کیا ہے،جو ان میں ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور گناہ کو] سے منسوخ ہے اور اس دوسری آیت میں ﴿اِثْم﴾ خمر (شراب) کے معنی میں ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’فتح القدیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ اس آیت کا نزول تحریمِ خمر سے پہلے ہوا ہے۔﴿سَکَرًا﴾ حبش کی زبان میں سرکہ ہے اور رزق حسن سے مراد دونوں درختوں کا کھانا ہے۔اہلِ لغت کہتے ہیں کہ ﴿سَکَرًا﴾ شراب کانام ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ سکر وہ ہے،جو اس کے پھل سے حرام ہے اور رزقِ حسن حلال ہے۔ابو داود رحمہ اللہ’’ناسخ‘‘ میں ابن منذر اور ابو حاتم رحمہما اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ’’سکر‘‘ نبیذ ہے اور رزقِ حسن زبیب (کشمکش) ہے،[2]تو اسے اﷲ تعالیٰ کے ارشاد: ﴿اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِر﴾ [المائدۃ: ۹۰] [بات یہی ہے کہ شراب
Flag Counter