Maktaba Wahhabi

203 - 871
﴿اِنَّہٗ یَرٰکُمْ ھُوَ وَ قَبِیْلُہٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَھُمْ اِنَّا جَعَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ اَوْلِیَآئَ لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْن﴾ [الأعراف: ۲۷] [بے شک وہ اور اس کا قبیلہ تمھیں وہاں سے دیکھتے ہیں،جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھتے،بے شک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کے دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے] جب بندہ اللہ تعالیٰ سے پناہ کا طالب ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اعتصام کرتا ہے تو یہ استعاذہ حضورِ قلب کا سبب ہوتا ہے۔اب اس کلمے کے معنی پہچان کر اسے دل سے ادا کرنا چاہیے نہ کہ صرف زبان سے،جس طرح اکثر لوگ فقط زبان سے کہتے ہیں اور اس کے معنی کی طرف توجہ نہیں کرتے،لہٰذا وہ نماز میں شیطان کے وسوسے سے محفوظ بھی نہیں رہ سکتے۔ بسملہ کا مفہوم: ﴿بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ کے معنی ہیں کہ میں قراء ت یا دعا وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے نام سے داخل ہوتا ہوں نہ کہ اپنے زور و قوت سے،بلکہ میں اس کام کو اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کے نام کی برکت سے کرتا ہوں۔ہر وہ کام جس کے شروع میں ﴿بِسْمِ اللّٰہ﴾پڑھی جاتی ہے،وہاں ﴿بِسْمِ اللّٰہ﴾ کے یہی معنی ہوتے ہیں۔وہ کام خواہ دین کا ہو یا دنیا کا،جب بندے نے اپنے دل میں اس بات کو حاضر کر لیا کہ میرا قراء ت میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ کی اعانت اور مدد سے ہے اور میں اپنی قوت و طاقت سے بری ہوں تو یہ حضورِ قلب اور ہر خیر سے موانع کے رد کے لیے ایک بہت بڑا سبب ہے۔ ’’رحمن‘‘ اور’’رحیم‘‘ اللہ تعالیٰ کے دو صفاتی نام ہیں۔یہ رحمت سے مشتق ہیں۔ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بلیغ اور بڑھ کر ہے،جیسے’’علام‘‘ اور’’علیم‘‘ ہیں۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ یہ دونوں رحمت والے نام ہیں اور ہر ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و راَفت ہے۔[1] حمد کا مطلب: سورۃالفاتحہ کی کل سات آیات ہیں۔ان میں سے ساڑھے تین آیات اللہ تعالیٰ کے لیے اور ساڑھے تین ہی بندے کے لیے ہیں۔اس کی پہلی آیت ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن﴾ ہے۔ حمد کسی اختیاری اور ارادی خوبی پر زبان سے ثنا کرنے کو کہتے ہیں۔حمد کی اس تعریف سے
Flag Counter