Maktaba Wahhabi

463 - 871
کَتِفَ شَـاۃٍ ثُمَّ صَلّٰی فَلَمْ یَتَوَضَّأْ ‘‘[1] (متفق علیہ) سے منسوخ ہے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کی دستی کھائی،پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا) نیز جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ((آخِرُ الْأَمْرَیْنِ مِنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم تَرْکُ الْوُضُوئِ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ)) [2] [یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو میں سے آخری فعل جسے آگ نے چھوا ہو،اس سے وضو نہ کرنا ہے] میں کہتا ہوں کہ علما نے اس سے وضو کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔جمہور عدمِ وجوب پر ہیں اور ایک گروہ وجوب کی طرف گیا ہے۔جمہور نے اس کا جواب دو طریقے سے دیا ہے۔ایک یہ کہ ابن عباس اور جابر رضی اللہ عنہم کی حدیث سے منسوخ ہے،دوسرا یہ کہ اس کا معنی ہاتھ اور منہ دھونا ہے۔[3]یہ اختلاف صدرِ اول میں تھا،اس کے بعد وضو کے عدمِ وجوب پر اجماع کر لیا گیا۔واللّٰه أعلم۔ ہاں اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کے بارے میں حکم برقرار ہے اور اکثر وضو کے نہ ٹوٹنے کی طرف گئے ہیں۔اس سے وضو ٹوٹنے کی طرف احمد بن حنبل،اسحاق بن راہویہ،یحییٰ بن یحییٰ،ابن منذر اور ابن خزیمہ رحمہ اللہ علیہم گئے ہیں اور اسی کو بیہقی اور نووی رحمہما اللہ نے اس خاص باب میں حدیث کی صحت کی وجہ سے اختیار کیا ہے اور یہی درست ہے۔آگ کے چھونے سے وضو کی حدیث عام ہے اور خاص عام پر مقدم ہے۔’’ما لا بد منہ‘‘ میں فرمایا ہے کہ احتیاط سب سے اولیٰ ہے۔ ’’حجۃ اللّٰه البالغۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ رہا اونٹ کا گوشت تو اس کا معاملہ دشوار ہے،اس کا فقہاے صحابہ وتابعین میں سے کوئی قائل نہیں ہے۔اس کے قائل احمد اور اسحاق رحمہما اللہ ہیں اور میرے نزدیک اس میں انسان کے لیے احتیاط بہتر ہے۔[4] انتھیٰ۔ان دونوں مسئلوں پر پوری بحث شرح مختصر شوکانی رحمہ اللہ میں ہم نے ذکر کردی ہے۔[5] پانچویں حدیث: بسرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
Flag Counter