Maktaba Wahhabi

279 - 871
ناسخ ومنسوخ کی شناخت ہے۔دشواری کی سب سے مضبوط وجہ متقدمین و متاخرین کی اصطلاح کا اختلاف ہے۔اس باب میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہ اللہ علیہم کے کلام کاجائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ وہ نسخ کو لغوی معنی میں،جو ایک چیز کا دوسری چیز سے ازالہ کرنا ہے،استعمال کرتے ہیں،اصولیوں کے اصطلاحی معنی میں نہیں۔ چنانچہ ان کے نزدیک آیت کے بعض اوصاف کا دوسری آیت سے ازالہ نسخ ہے،خواہ وہ مدتِ عمل کی انتہا ہو یا کلام کو معنی متبادر سے غیر متبادر کی طرف پھیرنا یا کسی قید کے اتفاقی ہونے کا بیان یا کسی عام کی تخصیص یا منصوص اور اس پر ظاہراً مقیس کے مابین فارق کا بیان یا عادتِ جاہلیہ یا شریعتِ سابقہ کا ازالہ۔الغرض ان کے نزدیک نسخ کا باب ایک کشادہ باب ہے،جس میں عقل کی گردش اور اختلافات کی گنجایش ہے۔اسی لیے آیاتِ منسوخہ کی تعداد پانچ سو تک پہنچا دی گئی ہے۔اگر ٹھیک سے غور کرو تو غیر محصور ہے،لیکن متاخرین کی اصطلاح کے لحاظ سے آیاتِ منسوخہ کی تعداد تھوڑی ہے زیادہ نہیں،خصوصیت سے اس توجیہ کے لحاظ سے جو ہم نے اختیار کی ہے۔جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’الإتقان‘‘ میں اس کے بعد کہ علما سے جو کچھ ذکر کیا گیا ہے،مناسب تفصیل سے بیان کرتے ہوئے،جو متاخرین کی رائے پر منسوخ ہے،شیخ ابن العربی کے موافق لکھتے ہوئے تقریباً بیس آیات کو شمار کیا ہے اور فقیر کو ان بیس میں سے زیادہ تر کے بارے میں نظر و اختلاف ہے۔[1] انتھیٰ۔ اس کے بعد ان بیس آیات کو تعاقب کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اس کے آخر میں کہا ہے:’’قلت: علی ماحررنا لا یتعین النسخ إلا فی خمس آیات‘‘[2] [ہم نے جو کچھ تحریر کیا ہے،اس کے مطابق تو صرف پانچ آیات منسوخ ٹھہرتی ہیں ] انتھیٰ۔یہ تعقبات متعلقہ آیتوں کے ضمن میں آئیں گے۔ 2۔نسخ کا ثبوت اور حکمت: کتاب و سنت کے درمیان فرق کیے بغیر نسخ عقلاً جائز اور سمعاً و شرعاً واقع ہوا ہے۔ابو مسلم اصفہانی رحمہ اللہ کے برخلاف اہلِ علم کی ایک جماعت نے اس پر اہلِ شریعت کا اتفاق حکایت کیا ہے،
Flag Counter