Maktaba Wahhabi

620 - 871
مگر ہمارے فہموں کی ان تک رسائی نہیں ہے۔چنانچہ حق سبحانہ و تعالیٰ تنہا ان کا علم رکھنے والا ہے۔جو شخص متشابہ آیات کی تفسیر کرنے کا تکلف کرتا ہے وہ کوئی درست کام نہیں کرتا،کیونکہ ان کی تفسیر کرنا ایسے ہی ہے،جیسے اللہ تعالیٰ کے ذمے کوئی ایسی بات لگائی جائے،جو اس نے نہیں کہی ہے۔نیز یہ محض اپنی رائے کے ساتھ کلام اللہ کی تفسیر کرنے کے مترادف ہے،جبکہ اس پر سخت وعید وارد ہوئی ہے۔صاحبِ’’الفوز الکبیر‘‘ نے اس مسئلے پر قدرے کلام کیا ہے،جس سے دل میں قلق اور ملال ہے۔ قرآن مجید میں معرّب الفاظ کا وجود: اہلِ علم نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ آیا قرآن مجید میں معرب الفاظ موجود ہیں یا نہیں ؟ معرب سے مراد وہ لفظ ہے،جو غیر عربوں کے ہاں ایک معنی کے لیے وضع کیا گیا ہو اور عربوں نے اسے اس معنی میں استعمال کیا ہو،جیسے اسمٰعیل،ابراہیم،اسحق،یعقوب علیہم السلام اور اس طرح کے دیگر الفاظ ہیں۔اس طرح کے مسئلے میں اختلاف کا واقع ہونا مناسب نہیں۔تعجب تو اس شخص پر ہے جس نے اس کی نفی کی ہے۔چنانچہ ابن حاجب اور اس کی کتاب کی شرح کرنے والوں نے کلامِ مجید میں معرب الفاظ کے وقوع کی اکثر نفی کی ہے۔ان کے پاس اس موقف کے حق میں سوائے اس کے کوئی دلیل نہیں کہ قرآن مجید میں جو معرب الفاظ پائے جاتے ہیں،وہ توافق لغتِ عربی و عجمی کی قبیل سے ہیں،مگر یہ تجویز انتہائی بعید ہے۔اگر اختلافی مقامات پر اس طرح کی چیزیں حجت و دلیل بننے لگیں تو ہر شخص محض اپنی تجویز کی بنا پر جو چاہے کہہ دے۔اہلِ باطل کے لیے احتمالات بعیدہ ہی وہ راستہ ہے،جس پر چل کر وہ صحیح دلائل کا رد کرتے ہیں،جبکہ لازم بالاجماع باطل ہے اور ملزوم بھی اسی کی طرح باطل ہو گا۔ اہلِ عربیت کا اس پراجماع ہے کہ ان اکثر اسما میں جو قرآن مجید میں موجود ہیں،عجمہ منع صرف کے اسباب و علل میں سے ایک سبب اور علت ہے۔پس اگر مذکورہ بالا بعید از عقل تجویز کا کوئی اثر ہوتا تو ان عربوں کا اس بات پر اجماع واقع نہ ہوتا۔نفی کرنے والوں نے اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ قرآن مجید میں ایسے الفاظ بھی ہیں،جو عربی نہیں تو اس سے لازم آتا ہے کہ سارا قرآن عربی نہ ہو،مگر اس اشکال کا جواب پہلے گزر چکا ہے۔الحاصل انھوں نے کوئی ایسی چیز پیش نہیں کی،جو محلِ نزاع میں استدلال کے لائق ہو۔ الغرض قرآن مجید میں رومی،ہندی،فارسی اور سریانی لغتوں کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں،جن
Flag Counter