مطابق لکھی ہیں اور ان میں ایک سے ہزار تک (اعجازِ قرآن) شمار کیے ہیں۔نیز ابن ابی الاصبیع،زملکانی اور رویانی رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے بھی اس موضوع پر تصانیف چھوڑی ہیں۔
علم إعراب القرآن:
یہ بھی علمِ تفسیر کی ایک فرع ہے،لیکن درحقیقت یہ موضوع علمِ نحو سے تعلق رکھتا ہے،اس کو ایک مستقل علم شمار کرنا درست نہیں ہے۔اسی طرح امام سیوطی رحمہ اللہ نے’’الإتقان‘‘ میں جو انواع ذکر کی ہیں اور انھیں علوم سے شمار کیا ہے،وہ بھی مناسب نہیں ہے۔پھر انھوں نے بیان کیا ہے جن امور کی مراعات معرب پر واجب ہے اور انھیں کتاب اعراب القرآن کا مقدمہ بنایا جانا مناسب ہے،لیکن اس کا مقصود علوم و فوائد کو بڑھانا ہے۔بہرحال اس نوع پر اہلِ علم کی ایک جماعت نے الگ کتابیں تصنیف کی ہیں،جیسے:
1۔شیخ مکی بن ابی طالب حموش بن محمد قیسی نحوی رحمہ اللہ (المتوفی: ۴۳۷ھ) ہیں۔ان کی کتاب کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’أما بعد: حمدا للّٰہ جل ذکرہ… الخ‘‘ ان کی یہ کتاب خاص طور پر مشکل اعراب سے متعلق ہے۔
2۔ابو الحسن علی بن ابراہیم حوفی نحوی رحمہ اللہ (المتوفی: ۵۶۲ھ) کی تالیف۔ان کی یہ کتاب دس جلدوں میں ہے اور بڑی واضح کتاب ہے۔
3۔ابو البقا عبداللہ بن حسین عکبری نحوی رحمہ اللہ (المتوفی: ۶۱۶ھ) کی تالیف۔یہ اس فن کی بہت مشہور کتاب ہے،جس کا نام’’التبیان‘‘ ہے۔
4۔ابو اسحق ابراہیم بن محمد سفاقسی رحمہ اللہ (المتوفی: ۷۴۲ھ) کی کتاب۔ان کی یہ کتاب مذکورہ بالا کتاب سے بہتر ہے اور چند جلدوں میں مطبوع ہے۔انھوں نے اس کا نام’’المجید في إعراب القرآن المجید‘‘ رکھا ہے۔اس کا آغاز یوں ہوتا ہے:’’الحمد للّٰہ الذي شرفنا بحفظ کتابہ…‘‘ اس کتاب میں انھوں نے اپنے شیخ ابو حیان رحمہ اللہ کی کتاب’’البحر المحیط‘‘ کا ذکر کر کے اس کی مدح کی اور کہا ہے:
’’لکنہ سلک سبیل المفسرین في الجمع بین التفسیر والإعراب فتفرق فیہ
|