Maktaba Wahhabi

218 - 871
علم پر عمل نہ کیا اور ان لوگوں سے مراد،جو گمراہ ہو گئے،وہ لوگ ہیں جو بغیر علم کے عمل کرتے ہیں۔پہلی صفت یہود کی ہے اور دوسری نصاریٰ کی۔لہٰذا سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے کہا ہے: ’’مَنْ فَسَدَ مِنْ عُلَمَائِنَا فَفِیْہِ شَبْہٌ مِّنَ الْیَہُوْدِ،وَ مَنْ فَسَدَ مِنْ عُبَّادِنَا فَفِیْہِ شَبْہٌ مِنَ النَّصَاری‘‘ [ہمارے علما کے بگاڑ میں یہودیوں کی مشابہت ہے اور ہمارے عبادت گزاروں کا بگاڑ نصاریٰ کے بگاڑ کی طرح ہے] بہت سے لوگ جب تفاسیر میں دیکھتے ہیں کہ یہود’’مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ‘‘ اور نصاریٰ’’الضَّآلِّیْن‘‘ ہیں تو جاہل آدمی یہ گمان کرتا ہے کہ یہ آیت انھیں کے ساتھ خاص ہے،حالاں کہ رب تعالیٰ نے اس پر یہ بات فرض کی ہے کہ وہ یہ دعا کرے اور ان صفات کے حاملین لوگوں کے طریق سے پناہ مانگے،سو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو اس کو یہ دعا سکھائے اور اس پر یہ سوال کرنا فرض کرے،لیکن اس سے مراد ان کے افعال سے پرہیز کرنا نہ ہو،یہ تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بالکل بدگمانی ہے۔اس دعا اور سوال کی تعلیم سے اللہ تعالیٰ کا مطلب یہی ہے کہ مومن ان دونوں غضب شدہ اور گمراہ فرقوں کے اعتقاد،اعمال،اقوال،حرکات و سکنات اور احوال سے پرہیز کرے اور ان کی مشابہت سے ہزار کوس دور بھاگے،کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ﴾ [المائدۃ: ۵۱] [اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو پھر اس کا شمار بھی انہی میں ہے] نیزحدیث نبوی میں آیا ہے: ((مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ)) [1] [جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہوا] الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے: اب ذرا دیکھو کہ یہود و نصاریٰ کے طریقے سے بچنا تو کجا،جو شخص ان کو یہ بات کہتا ہے کہ تم سورۃالفاتحہ کے مضمون کے مطابق عمل کرو،یعنی موحد بن جاؤ،کتاب و سنت کے اتباع میں صراطِ مستقیم
Flag Counter