Maktaba Wahhabi

594 - 871
رکھتا،بلکہ اس واقعے کا نقشہ مخاطب کے ذہن میں جمانا مقصود ہوتا ہے،تاکہ اس کے دل پر خوف طاری ہو جائے۔لہٰذا اس طرح کی جگہوں میں اس عامل کی جستجو کرنا کوئی ضروری نہیں ہوتا۔ اسی طرح وہ’’أَنْ‘‘ جس سے مصدری معنی پیدا ہوتے ہیں،اس کے شروع میں حرفِ جر کو حذف کرنا عربی زبان میں عام ہے۔اس کے معنی کبھی’’لِأَنْ‘‘ کبھی’’بِأَنْ‘‘ اور کبھی’’إِنَّ‘‘ کے ہوتے ہیں۔یہ بھی جاننا چاہیے کہ ﴿وَلَوتَریٰ﴾،﴿وَلَوْ یَریٰ﴾ اور ﴿اِذْ یَرَوْنَ﴾ جیسی آیات جن میں’’لَوْ‘‘ آتا ہے،ان کی اصل یہ ہے کہ وہاں پر شرط کے بعد جوابِ شرط محذوف ہوتا ہے۔اہلِ عرب اس طرح کی ترکیب مخاطب میں تعجب پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں،اس لیے محذوف کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ اِبدال کا بیان: اِبدال جو کلام میں تصرف کو کہتے ہیں،یہ کئی طرح پر ہوتا ہے: 1۔کبھی تو ایک فعل کو دوسرے فعل کی جگہ مختلف اغراض کے لیے رکھتے ہیں۔اس جگہ ان اغراض کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرنا دشوار ہے۔البتہ چند مثالیں بیان کی جاتی ہیں : 1۔آیت: ﴿اَھٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرُ اٰلِھَتَکُمْ﴾ میں’’یَسُبُّ آلِھَتَکُمْ‘‘ کے بجائے ﴿یَذْکُرُ اٰلِھَتَکُمْ﴾ کا ذکر کرنا،کیوں کہ گالی کا لفظ مکروہ تھا۔ 2۔آیت: ﴿مِنَّا لَا یُصْحَبُوْنَ﴾ میں’’مِنَّا لَا یُنْصَرُوْنَ‘‘ کے بجائے ﴿مِنَّا لَا یُصْحَبُوْنَ﴾ چونکہ نصرت اجتماع اور مصاحبت نہیں ہو سکتی،اس لیے’’یُنْصَرُوْنَ‘‘ کے بدلے’’یُصْحَبُوْنَ‘‘ آیا ہے۔ 3۔آیت: ﴿ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ میں’’خَفِیَتْ‘‘ کے بدلے ﴿ثَقُلَتْ﴾ بولا ہے،کیوں کہ جب کوئی چیز پوشیدہ ہوتی ہے تو آسمان و زمین والوں پر اس کا علم دشوار اور ثقیل ہوتا ہے۔ 2۔کبھی ایک اسم کو دوسرے اسم سے بدل دیتے ہیں۔اس کی مثالیں درج ذیل ہیں : 1۔آیت: ﴿فَظَلَّتْ اَعْنَاقُھُمْ لَھَا خٰضِعِیْنَ﴾ میں اسم’’خَاضِعَۃٌ‘‘ کے بدلے ﴿خٰضِعِیْنَ﴾ استعمال کیا ہے۔
Flag Counter