Maktaba Wahhabi

506 - 871
سنت: رہی سنت تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل،قول اور تقریر سے عبارت ہے اور باتفاق اہلِ علم سنت مطہرہ احکام کی قانون سازی میں مستقل اور جائز کو جائز اور ناجائز کو ناجائز کرنے میں قرآن کے مانند ہے۔قرآن پر حدیث کو پیش کرنے کی روایت اس فن کے ائمہ کے نزدیک خود ساختہ اور بناوٹی ہے۔[1] امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’الکتاب أحوج إلی السنۃ من السنۃ إلی الکتاب‘‘ [2] [یعنی سنت کو قرآن کی نسبت قرآن کو سنت کی زیادہ ضرورت ہے] یحییٰ بن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ’’السنۃ قاضیۃ علی الکتاب‘‘[3] کہ سنت کتاب اﷲ پر فیصلہ کن ہے۔حاصل یہ کہ سنت مطہرہ کی حجیت کا ثبوت اور احکام سازی میں اس کا استقلال ضرورت دینی ہے اور اس کے خلاف وہی کرتا ہے جو اسلام میں کوئی حصہ نہیں رکھتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال میں تعارض نہیں ہے،بلکہ وہ متغایر حوادث ہیں،جو مختلف اوقات میں وجود میں آئے۔ہاں اگر یہ افعال اقوال کے بیانات ہوں تو صرف صورتاً تعارض متصور ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اقوال کے مبینات کی طرف لوٹ رہے ہیں۔قول وفعل کے تعارض کی کئی صورتیں ہیں اور اسے دورکرنے کی بھی کئی صورتیں ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز کا ارادہ سنت میں داخل نہیں ہے،کیونکہ یہ بدوں تکمیل محض دل میں آنے کی بات ہے۔ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارات اور کتابت منجملہ سنت ہے اور اس پر دلیل قائم ہے۔دل جوئی میں اس کا ترک آپ کے فعل کے حکم میں ہے۔اخبار کی کئی انواع ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ خبر متواتر سے علم ضروری حاصل ہوتا ہے اور یہی جمہور کا مذہب ہے اور خبر کے مخبر اور سامع سے متعلق کچھ شروط ہیں۔جمہور کا مذہب خبر واحد پر عمل اور اس سے تعبد کا ثبوت ہے۔جس نے اس کے خلاف کیا ہے،کوئی قابلِ تمسک چیز نہیں لایا ہے۔خلفاے راشدین وغیرہ میں سے صحابہ اور تابعین اور تبع تابعین اخبارِ آحاد پر عمل کے جویا ہیں۔وہ خوب جانتے ہیں کہ وہ اس قدر ہیں کہ ایک بسیط تالیف ہی میں سما سکتے ہیں۔جس نے بعض حالات
Flag Counter