Maktaba Wahhabi

484 - 871
کتابۃ العلم‘ ‘میں ذکر کیا ہے اور اس معنی کو دوسری جگہ بھی شرح میں مکرر ذکرکیا ہے۔ کتابت کے جواز کے ادلہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ روایت بھی ہے: قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم : ((مَا حَقُّ امْرِیٍٔ مُسْلِمٍ لَہُ شَیْیٌٔ یُوْصِيْ فِیْہِ یَبِیْتُ لَیْلَتَیْنِ إِلّا وَوَصِیَّتُہُ مَکْتُوْبَۃٌ عِنْدَہُ)) [1] (متفق علیہ) [جو مسلمان وصیت کرنا چاہتا ہو اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ دو راتیں بھی یوں گزار دے کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو] کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس حدیث کے مطابق وصیت لکھ کر اپنے پاس رکھتے تھے۔یہیں سے ظاہر ہے کہ جس نے علم کی کتابت اور تصانیف کو بدعات میں شمار کیا ہے،اس نے اچھا نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ((اُکْتُبُوْا لِأَبِيْ شَاہٍ))کی دلالت کم سے کم اس کی اباحت ہے،بلکہ استحباب پر ہے،ورنہ صیغہ امر کسی صارف کی عدم موجودگی کی وجہ سے وجوب پر محمول ہے۔واللّٰہ أعلم۔ انیسویں حدیث: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عورتوں اور بچوں کے قتل سے نہی کے بارے میں صحیحین وغیرہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث صحیح ہے،[2] جبکہ صعب بن جثامہ لیثی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین پر شبخون مارنے اور اس میں عورتوں اور بچوں کے زد میں آنے کے بارے میں سوال کیا گیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ھُمْ مِنْھُمْ)) [3] [وہ انہیں میں سے ہیں ] یہ صحیحین میں ہے اور اس باب میں کئی حدیثیں ہیں۔زہری رحمہ اللہ جب اس حدیث کو روایت کرتے تو فرماتے تھے کہ یہ منسوخ ہے۔ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کہا کہ ان کی یہ بات صحیح نہیں ہے،اس لیے کہ نہی عورتوں اور بچوں کو بالقصد قتل کرنے کے بارے میں ہے اور صعب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بالقصد نہیں ہے،لہٰذاتنا قض نہیں ہوگا۔[4] انتھیٰ۔ میں کہتا ہوں کہ شوکانی رحمہ اللہ نے’’دراري مضیۃ‘‘ میں فرمایا ہے کہ عورتو ں اور بچوں کو بغیر
Flag Counter