Maktaba Wahhabi

209 - 871
جو شخص کسی مصیبت کو ٹالنے اور کسی پھنسے کام کو نکالنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو پکارے،پھر کسی مخلوق کو بھی اسی کام کے لیے پکارے،خصوصاً جب وہ مذکورہ مخلوق کی عبودیت کی طرف اپنے نفس کو منسوب کرے،مثلاً یوں کہے: فلان عبدک،یا عبد علي،یا عبد النبي،یا عبد الحسین،یا عبد الرسول،یا عبد الزبیر وغیرہ کا نام رکھے تو اس نے گویا اس مخلوق کی ربوبیت کا اقرار کیا اور اس کو پکارنے میں اپنی جان کو اس کا عبد اور بندہ ٹھہرایا اور اپنی عبودیت کا اس کے لیے اعتراف کیا،اس میں اس کی غرض یہ ہے کہ وہ کوئی خیر لائے اور شر کو دور کرے۔لہٰذا جب اس نے اپنا نام عبد رکھا تو اس پکارے جانے والی مخلوق کو رب سمجھا،اگرچہ زبان سے اس بات کا اقرار نہ کیا کہ وہ رب العالمین ہے،بلکہ اس کی ربوبیت کے بعض حصے کا انکار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے،جو اپنی جان کا خیرخواہ ہے اور (عقائد کی اصلاح جیسے) اہم امور کی سوجھ بوجھ حاصل کرتا ہے اور اہلِ علم کے کلام سے اس بات کا متلاشی ہے کہ انھوں نے اس سورت کی تفسیر یوں ہی کی ہے یا نہیں،کیونکہ علما ہی صراط مستقیم پر گامزن ہیں۔ ﴿یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ کی تفسیر: جمہور مفسرین کے نزدیک ﴿یَوْمِ الدِّیْن﴾ کی تفسیر وہی ہے،جواللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں فرمائی ہے۔فرمانِ الہٰی ہے: ﴿وَمَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ* ثُمَّ مَآ اَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الدِّیْنِ* یَوْمَ لاَ تَمْلِکُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَیْئًا وَّالْاَمْرُ یَوْمَئِذٍ لِّلّٰہِ﴾ [الانفطار: ۱۷،۱۸،۱۹] [اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ جزا کا دن کیا ہے؟ پھر تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ جزا کا دن کیا ہے؟ جس دن کوئی جان کسی جان کے لیے کسی چیز کا اختیار نہ رکھے گی اور اس دن حکم صرف اللہ کا ہوگا] جس شخص نے اس آیت کی تفسیر معلوم کر لی،اس نے اللہ تعالیٰ کے اس دن مَلِک [بادشاہ] ہونے کی وجہ تخصیص معلوم کر لی،جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ﴾ [المؤمن: ۱۶] [آج کس کی بادشاہی ہے؟ اللہ ہی کی جو ایک ہے،بہت دبدبے والا ہے]
Flag Counter