Maktaba Wahhabi

120 - 871
قربیۃ لأہل العنایۃ،ورحمۃ خاصۃ لأہل الجنایۃ،وھي آیۃ عند الشافعي من کل سورۃ،وعند أبي حنیفۃ آیۃ فذۃ للفصل بین السور‘‘[1]انتھیٰ۔ [’’بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم‘‘ ہدایت کے خزانے سے ایک قدسی کلمہ ہے اور ولایت کی خلعتوں میں سے ایک خلعتِ ربوبیت ہے۔اہلِ عنایت کے لیے ایک قریب کا رشتہ ہے اور اہلِ جنایت (گناہ گاروں) کے لیے ایک خاص رحمت ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ہر سورت کے شروع کی ایک آیت ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک سورتوں کے درمیان فاصلہ کرنے کے لیے ایک مستقل آیت ہے] بسم اللہ کی برکات: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں : ((کُلُّ أَمْرٍ ذِيْ بَالٍ لَا یُبْدَأُ فِیْہِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فَھُوَ أَقْطَعُ)) [2] (أخرجہ أبو داؤد والنسائي وابن ماجہ) یعنی جس امر شریف کے آغاز میں’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ نہیں پڑھی جاتی وہ امر ناقص،قلیل الفائدہ اور یسیر البرکۃ ہوتا ہے۔یہ اس بات پر دلیل ہے کہ ہر امرِ شریف کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کا نام لینا سنت ہے،جیسے کھانا پینا،وضو،غسل اور جماع وغیرہ۔اگر بھول جائے تو یوں کہہ لے :’’بسم اللّٰہ أولَہ وآخرَہ‘‘ [اس کام کے شروع اور اختتام پر میں اللہ کا نام لیتا ہوں ] خدا کا نام بھی نامِ خدا کیا راحتِ جاں ہے عصاے پیر ہے تیغِ جواں ہے حرزِ طفلاں ہے وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کلمات (بسم اللّٰه الرحمن الرحیم) کو ایک ایسا سلطان اور غلبہ دیا ہے،جو اور کلمات کو نہیں دیا۔طہارت کی تکمیل،ذبیحہ کی حلت،شیطان کی ممانعت اور کھانے کو خوشگوار بنانا وغیرہ سب اسی کے کہنے سے ہوتا ہے۔اگر کوئی شخص سچے دل سے اسے پڑھے تو نہ دریامیں ڈوبے گا نہ آگ میں جلے گا اور نہ سانپ بچھو اس کو کاٹے گا۔[3]
Flag Counter