Maktaba Wahhabi

411 - 871
انھیں خوب قتل کر چکو تو ان کو مضبوط باندھ لو] اِثخان قتل میں مبالغہ اور زیادتی کرنا ہے۔’’فتح القدیر‘‘ میں فرمایا ہے کہ علما اس آیت میں اختلاف کرتے ہیں کہ محکم ہے یا منسوخ؟ کہا گیا ہے کہ بت پرستوں کے بارے میں منسوخ ہے۔فدیہ اور ان پر احسان جائز ہے اور اس کی ناسخ آیتِ سیف اور اﷲ کا ارشاد: ﴿فَاِمَّا تَثْقَفَنَّھُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِھِمْ مَّنْ خَلْفَھُمْ﴾ [الأنفال: ۵۷] [پس اگر کبھی تو انھیں لڑائی میں پا ہی لے تو ان (پر کاری ضرب) کے ساتھ ان لوگوں کو بھگا دے جو ان کے پیچھے ہیں ] اور اﷲ کا یہ ارشاد: ﴿وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃ﴾ [التوبۃ: ۳۶] [اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو] ہے۔ قتادہ،ضحاک،سدی،ابن جریج رحمہ اللہ علیہم اور بہت سے اہلِ کوفہ اسی کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ سب سے آخر پر اترنے والی سورت،سورۃ المائدۃ ہے۔پس ہر مشرک کا قتل واجب ہے،مگر جن کے ترکِ قتل پر دلیل موجود ہو اور ایسے ہی عورتوں اور بچوں کو اور جس سے جزیہ لیا جاتا ہو۔یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مشہور مذہب ہے اور یہ عطا رحمہ اللہ وغیرہ سے روایت کیا گیا ہے۔بہت سے علما کہتے ہیں کہ یہ آیت محکم ہے اور امام کو اسے قتل اور قید کرنے اور قید کے بعد احسان اور فدیہ لینے کا اختیار ہے۔مالک،شافعی،ثوری،اوزاعی اور ابوعبید رحمہ اللہ علیہم وغیرہ اسی کے قائل ہیں اور یہی راجح ہے،کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاے راشدین نے یہ کیا۔سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ فدیہ اور اسیر بنانا اِثخان اور قتل بالسیف کے بعد ہی جائز ہوگا،کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗٓ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ﴾ [الأنفال: ۶۷] [کبھی کسی نبی کے لائق نہیں کہ اس کے ہاں قیدی ہوں،یہاں تک کہ وہ زمین میں خوب خون بہا لے] لہٰذا جب خونریزی کے بعد قید کرے تو اس میں امام کی رائے ہے،قتل کرے یا کچھ اور کر۔[1] انتھیٰ،کلامہ۔ سورۃ الفتح: سیدنا ابن عباس اور مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک مدنی سورت ہے اور مروان رحمہ اللہ نے کہا
Flag Counter