Maktaba Wahhabi

86 - 871
قرآن مجید کی کوئی آیت یاد کر کے بھول جانا بہت بڑا گناہ ہے۔یہ مضمون ایک مشہور حدیث میں آیا ہے۔[1] بہتر تو یہ ہے کہ اگر اثناے تلاوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامِ مبارک سنے تو پست آواز کے ساتھ درود پڑھ لے،ورنہ فارغ ہونے کے بعد تو ضرور ہی پڑھے،بلکہ بعض کے نزدیک عین نماز میں اسمِ شریف سن کر درود پڑھے۔ قرآن مجید کتنے دنوں میں ختم کیا جائے؟ تین راتوں سے کم میں قرآن مجید کا ختم کرنا بے سمجھی ہے،کیوں کہ اس میں عجلت کے سبب تدبر و تفکر نہیں ہو سکتا ہے۔سلف کی ایک جماعت نے ظاہر حدیث[2]کے مطابق تین دن میں ختم کرنا ہمیشہ کے لیے طے کر رکھا تھا۔ایک جماعت دو ماہ میں ختم کرتی تھی۔دوسری جماعت دس دن میں اور تیسری جماعت سات دن میں۔اسی پر اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرہم کا عمل تھا،جن میں عثمان بن عفان،زید بن ثابت،ابن مسعود اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اس ختم کا طریقہ یہ تھا کہ جمعہ کے دن اول قرآن سے سورۃ الانعام تک،ہفتے کو سورۃالانعام سے سورت یونس تک،اتوار کو سورت یونس تا سورت طٰہٰ،پیر کو سورت طٰہٰ سے سورۃ العنکبوت تک،منگل کو سورۃ العنکبوت سے تا سورۃالزمر،بدھ کو سورۃ الزمر سے سورۃ الواقعہ تک اور جمعرات کو سورت واقعہ سے آخر قرآن تک پڑھتے۔ جو شخص ان کے اس طریقے پر چلتے ہوئے اس ترتیب سے ایک ہفتے میں بلا فصل قرآن مجید ختم کرے گا،پھر وہ دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے گا اور اس کا مطلوب و مقصود پورا ہو گا۔ ختم کے دوسرے طریق کا نام’’فمی بشوق‘‘ ہے۔یہ طریقہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے،اس کا طریقہ یہ ہے کہ فاتحہ کی فا سے مائدہ کی میم تک۔پھر مائدہ سے یائے یونس تک،پھر بائے بنی اسرائیل تک،پھر شین شعراء تک،پھر واو والصافات تک،پھر قاف تک اور پھر آخر قرآن تک پڑھے۔ گر مصحف تو عذار تو افتد بدست من ختم فمی بشوق بیک بوسہ کردن است
Flag Counter