Maktaba Wahhabi

579 - 871
وجوہ کے ساتھ شبے کا قلع قمع کرے،یا واضح مثال کے ساتھ اس فریق کے حال کو اس کے ساتھ بیان کیا گیا ہو،جیسے فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا﴾ [البقرۃ: ۱۷] [اس شخص کی مثال کی سی ہے،جس نے آگ خوب بھڑکائی] اسی طرح بتوں کی پرستش کی برائی اور خالق و مخلوق،مالک و مملوک کے درمیان عجیب مثالوں سے فرق بیان کیا گیا ہو،یا ریا کار اور دکھلاوا کرنے والے لوگوں کے اعمال کا ضائع ہونا بلیغ ترین وجوہ سے بیان کیا گیا ہو۔ آیت کا ظاہر و باطن اور اس کا مطلع: غرائبِ قرآن صرف مذکورہ ابواب میں محصور نہیں ہے۔کبھی کوئی آیت بلاغتِ کلام اور خوش اسلوبی کی وجہ سے غریب ہوتی ہے،جیسے سورۃ الرحمن ہے۔اس سورت کو حدیث میں’’عروس القرآن‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔کبھی آیت کی غرابت اس میں نیک بخت اور بدبخت انسان کی صورت کشی کے حوالے سے ہوتی ہے۔چنانچہ حدیث میں آیا ہے: ((لِکُلِّ آیَۃٍ مِّنْھَا ظَہْرٌ وَبَطْنٌ،وَلِکُلِّ حَدٍّ مُطَّلَعٌ)) [1] [ہر آیت کا ظاہر اور باطن ہے اور ہر سطح کا مفہوم سمجھنے کے لیے مناسب استعداد کی ضرورت ہے] علوم پنج گانہ کا ظاہر وہ چیز ہے جو ان کا مدلول اور مفہوم ہے۔تذکیر بآلاء اللہ کا باطن اللہ کی نعمتوں میں تفکر کرنا اور صحیح مراقبہ کرنا ہے۔تذکیر بایام اللہ میں مدح و ذم،ثواب و عذاب کی علت جاننا اور ان واقعات سے نصیحت پکڑنا ہے۔جنت اور جہنم کی تذکیر میں خوف و رجا کا ظہور ہے اور ان امور کو عینی مشاہدے کی طرح بنانا ہے۔آیاتِ احکام میں اشارات و کنایات کے ساتھ فقہی احکام کا استنباط کرنا ہے۔گمراہ فرقوں سے مخاصمے میں باطن ان قباحتوں کی اصل کو جاننا اور اس طرح کی چیزوں کو اس کے ساتھ ملانا ہے۔ظاہر کا مطلع عربی زبان اور فن تفسیر سے متعلقہ آثار کی معرفت حاصل کرنا ہے اور باطن کا مطلع نور باطن اور حالتِ سکینت کے ساتھ ذہن کا لطف اور فہم کی استقامت ہے۔واللّٰہ أعلم۔ قرآن کے ناسخ و منسوخ کا بیان : فنِ تفسیر کے مشکل مقامات میں سے ایک مشکل مقام جس میں بہت سے اختلافات ہیں،ناسخ و منسوخ کی معرفت ہے۔اس میں دشواری کا سب سے بڑا سبب متقدمین اور متاخرین کی اصطلاح کا
Flag Counter