Maktaba Wahhabi

581 - 871
غور و فکر کے ساتھ اصل بات تک پہنچنا دشوار و مشکل ہے۔میری کتاب’’حصول المأمول من علم الأصول‘‘ ان مباحث پر کافی روشنی ڈالتی ہے،اس مسئلے میں تنقید و تنقیح کے لیے اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اسبابِ نزول : دشوار مقامات میں سے ایک اسبابِ نزول کا مسئلہ بھی ہے۔اس کی صعوبت و دشواری کا سبب بھی متقدمین اور متاخرین کی اصطلاحات کا اختلاف ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ علیہم کے بیانات سے جو نتیجہ نکالا جا سکتا ہے،وہ یہ ہے کہ یہ حضرات جہاں یہ کہتے ہیں :’’نزلت في کذا‘‘ [یہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی] تو یہ کسی واقعہ سے مخصوص نہیں ہوتا،جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں ہوا اور نزولِ آیت کا سبب بنا ہو،بلکہ ان حضرات کی عادت یہ تھی کہ وہ ایسے مواقع کا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا اس کے بعد آئے ہوں،ذکر کرتے تو کہہ دیا کرتے کہ یہ آیت ایسے مواقع پر نازل ہوئی ہے۔اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ آیت پوری طرح اس واقعہ پر منطبق ہو،بلکہ اسے اصل حکم پر منطبق ہونا چاہیے۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں کوئی واقعہ پیش آیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا حکم کسی آیت سے اخذ فرما کر موقع پر تلاوت کر دی۔ایسے واقعات کو بھی بیان کرتے وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم’’نزلت في کذا‘‘ کہہ دیا کرتے تھے۔ کبھی وہ ان صورتوں میں کہتے:’’فأنزل للّٰہ تعالیٰ قولہ کذا‘‘ [اللہ تعالیٰ نے اپنا حکم اس طرح نازل فرمایا] یا کہتے:’’فنزلت ھٰذہ الآیۃ‘‘ [تو یہ آیت نازل ہوئی] اس کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آیت سے استنباط اور اس وقت قلب مبارک پر جو کچھ القا ہوا،وہ بھی وحی اور دل میں الہام کی ایک قسم ہے،لہٰذا ایسے موقع پر’’فأنزل اللّٰہ‘‘ [پس اللہ نے نازل کی] یا’’فنزلت‘‘ [پس اتری] کہناجائز ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص اسے تکرارِ نزول سے تعبیر کر لے۔ محدثین کی یہ عادت ہے کہ وہ قرآنی آیات کے ذیل میں بہت سی ایسی چیزیں ذکر کر دیتے ہیں،جو در حقیقت سببِ نزول نہیں ہوتیں،جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اپنے مباحثے میں کسی آیت کو بہ طور شہادت پیش کرنا یا کسی آیت سے مثال دینا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت سے اپنی بات کو ثابت کرنا یا ایسی حدیث روایت کرنا جو اصل مطلب کی آیت کی موافقت میں ہو یا نزولِ آیت کے موقع کا تعین
Flag Counter