Maktaba Wahhabi

591 - 871
کرے تو بے شک اللہ قدر دان ہے،سب کچھ جاننے والا ہے] [1] عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیت: ﴿فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾ [النساء: ۱۰۱]میں اس قید’’إِنْ خِفْتُمْ‘‘ کا کیا معنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صَدَقَۃٌ تَصَدَّقَ اللّٰہُ بِھَا)) [2] [یہ ایک صدقہ (رخصت) ہے جو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے] یعنی یہ اتفاقی قید ہے۔توجیہِ آیات کی مثالیں بہت زیادہ ہیں،جو ہماری تفسیر (’’فتح البیان‘‘ عربی اور’’ترجمان القرآن‘‘ اردو) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔اس جگہ بس اس کے معنی و مفہوم پر تنبیہ کرنا مقصود ہے۔ توجیہِ آیات کی مختلف وجوہ: آیاتِ مباحثہ میں اچھی توجیہ وہ ہے،جس میں بحث و حجت کرنے والی جماعتوں کے طریقوں کا بیان ہو اور اس میں وجۂ الزام کی صراحت کی گئی ہو۔آیاتِ احکام میں بہتر توجیہ وہ ہے،جس میں سائل کی مختلف صورتوں کی وضاحت کی گئی ہو اور قیود کے فوائد وغیرہ کا ذکر ہو۔تذکیر بآلاء اللہ کی آیتوں میں بہتر توجیہ وہ ہے،جس میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تصویر کشی کی گئی ہو اور ان کے چھوٹے چھوٹے یا جزوی مقامات ظاہر کیے گئے ہوں۔اسی طرح تذکیر باَیام اللہ کی آیتوں میں اچھی توجیہ وہ ہے،جس میں واقعات باہم مرتب ہوں اور ان میں جو تعریض یا اشارے ہوں،ان کی وضاحت کا حق ادا ہو جائے۔موت اور اس کے بعد پیش آنے والے حالات سے متعلق آیات کی اچھی توجیہ وہ ہے،جس میں اس وقت کی تصویر کھینچی گئی ہو اور متعلقہ حالات کی توضیح ہو۔ فنونِ توجیہ کا بیان: فنونِ توجیہ میں یہ امر بھی شامل ہے کہ جو چیزیں نامانوس ہونے کی وجہ سے فہم سے دور ہیں،وہ فہم کے قریب کر دی جائیں۔دو دلیلیں جب ایک دوسرے کے خلاف ہوں تو ان میں فیصلہ کرنا چاہیے۔اسی طرح دو تعریضوں اور معقول و منقول کے درمیان ٹکراؤ ہو تو اسے بھی دور کرنا چاہیے۔دو
Flag Counter